• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ہوں ۔ میری بے بسی دیکھیں کہ میرے باسی پانی کو ترس رہے ہیں حالانکہ میری دولت سے ڈیم بنتے ہیں ۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اگلے روز وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ان تمام لوگوں کا مشاورتی اجلاس منعقد کیا، جنہیں کراچی کے ’’ اسٹیک ہولڈرز ‘‘ کا نام دیاگیا ۔ یعنی وہ لوگ جمع تھے ، جنہوں نے مجھ پر اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا ہوا ہے ۔ ان میں سے کسی کے پاس بھی اس مسئلے کا حل نہیں تھا کہ کراچی والوں کو پانی کیسے دیا جائے ۔ یہ سب اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے تھے اور اس صو رتحال کا ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے ۔ میرے ان تمام اسٹیک ہولڈرز نے مجھ سے محبت کے نام پر سیاست کی اور آج یہ سارے اسٹیک ہولڈرز ایسے ہیں ، جو ہزار روپے فی لیٹر پانی خرید کر بھی اپنی ضروریات پوری کر سکتے ہیں ۔ میرے اکثر غریب باسی پیاسے ہیں ۔ اس مشاورتی اجلاس میں جو باتیں ہوئیں اور جس طرح ہر اسٹیک ہولڈر میرا وارث بن رہا تھا ، اس پر صرف یہ شعر یاد آ رہا ہے

حیراں ہوں کہ دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

میرے باسی صرف پیاسے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ہر اس عذاب سے دوچار ہیں ، جو تہذیب سے پہلے انسان پر نازل تھے ۔ ایک زمانے میں دنیا کے خوبصورت اور صاف ستھرے شہروں میں میرا شمار ہوتا تھا اور میں جنوبی ایشیا کا سب سے ترقی یافتہ شہر تھا۔ اس خطے میں بندرگاہ اور ہوائی اڈہ سب سے زیادہ مصروف ہوتے تھے ۔ دنیا بھر کے سیاح میری مارکیٹوں اور بازاروں میں آکر خریداری کرتے تھے ۔ میرے ہوٹلوں کا معیار بین الاقوامی تھا اور وہاں غیر ملکی سیاحوں کو پیشگی اپنی رہائش محفوظ کرانا ہوتی تھی ۔ میری سڑکیں روزانہ پانی سے دھلتی تھیں ۔ میرا فن تعمیر مشرق او رمغرب کا تہذیبی سنگم تھا۔ میرے باسیوں کو پاکستان میں پہلی دفعہ اور پہلی جگہ جدید ٹاؤن شپ کے مطابق رہائش ملی ۔ انہیںنقل و حرکت کے لئے اپنے وقت کی جدید ٹرانسپورٹ ملی ۔ انہیں بجلی ، پانی ، گیس ، تعلیم ، صحت ، سیوریج اور شاہراہوں کی سہولتیں ملیں ان سہولتوں کی فراہمی میں کسی نے مجھ پر احسان نہیں کیا۔ میرے اپنے وسائل تھے ۔ میں نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا کی اہم ترین بندرگاہ ہوں ۔ میں مشرق اور مغرب کے درمیان تجارتی راہداری ہوں ۔ میں غریبوں کی ماں ہوں میں نے پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد ہر اس شخص کو اپنی گود میں سمیٹا ، جو کہیں اور زندگی سے مایوس تھا۔ میں نے لوگوں کو عزت اور وقار دیا ۔آج میرے حالات یہ ہیں کہ میری شناخت سب سے گندے شہر کی حیثیت سے ہوتی ہے ۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر ہیں ۔ سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ لوگوں کو پانی میسر نہیں ۔ 8سے 16گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ۔ ’’غریب کی ماں ‘‘ کراچی میں دنیا کے سب سے زیادہ بھکاری ہیں ۔ نوجوان لڑکیاں چند ماہ کے بچوں کے ساتھ کڑکتی دھوپ میں ہر چوراہے پر بھیک مانگتی نظر آتی ہوں تو یہ میں‘ کراچی ہوں ۔ میرے پانیوں سے لوگوں نے لوٹ مار کی ، لوگوں سے گھروں کی کھڑکیاں لگانے پر پیسے وصول کئے گئے ۔ میری بلندیوں اور گہرائیوں سے نہ صرف دولت بنائی گئی بلکہ حکومتیں چلائی گئیں ۔ مافیاؤں کو جنم دیاگیا ۔ میری مٹی سے لوگوں نے امریکہ ، یورپ اور عرب ممالک کی رئیل اسٹیٹ پر قبضہ کیا۔ مگر میرے باسی ہر اس سہولت سے محروم ہیں ، جو انہیں آج سے 40 سال پہلے حاصل تھی ۔

میں کراچی ہوں ۔ میرا قصور کیا ہے ؟ میں ما قبل تاریخ قدیم سندھیوں کی ایک بستی تھا۔ میں پہلے غیر مسلم اور بعد ازاں مسلم سندھیوں کی اعلیٰ روایات کا امین ہوں میں صرف سندھ کا نہیں بلکہ وادی سندھ کی اعلیٰ روایات کا امین ہوں ۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں اس خطے کی اہم بندرگاہ ہوں ۔ میرے آثار وادی سندھ سے بھی پہلے کے ہیں ۔ میں ماقبل تاریخ کانسی کے دور میں بھی ایک اہم بندرگاہ تھا ۔ میں دیبل تھا ، بھمبھور تھا ۔ میں مائی کلاچی اور کراتشی تھا لیکن میں وادی سندھ ، صوفی ازم اور اعلیٰ انسانی اقدار کا امین تھااور میں نے 1944ء میں ٹاور سے پہلے باب کراچی پر ایک بورڈ لگایا تھا کہ ’’ جنوبی افریقا کے نسل پرستوں کو کراچی خوش آمدید نہیں کہتا ۔ ‘‘ میں نے ماقبل تاریخ مسلمان حملہ آوروں ، تالپوروں ، کمپنی راج ، برطانوی راج اور پاکستان کی بے رحم آمریتوں کا دور دیکھا لیکن کبھی اپنے باسیوں میں امتیاز نہیں کیا ۔ مگر میں دنیا کی شاید واحد بندرگاہ ہوں ، جس پر ایسے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے ، جن کی نشاندہی برازیل کے ناول نگار پاؤلو کوئیلہو نے اپنے ناول ’’ الکیمسٹ ‘‘ میں کردی ہے ۔ انہوں نے درست کہا ہے کہ بندرگاہوں پر ٹھگ قبضہ کر لیتے ہیں ۔ نام نہاد قوم پرستانہ ، نسل پرست ، لسانی ، فرقہ ورانہ اور مذہبی سیاست کرنے والوںنے مجھ پر قبضہ کر لیا ہے اور میری وہ صلاحیت چھین لی ہے ، جس کے تحت میں اپنا مسئلہ خود حل کر سکتا ہوں ۔ میں پاکستان کو 70 فیصد ریونیو دیتا ہوں ۔ مجھے نام نہاد قوم پرستوں ، نسل پرستوں ، لسانیت پرستوں ، فرقہ پرستوں سے بچایا جائے۔ کچھ لوگ مجھے پیرس بنانے آئے تھے مگر وہ لاڑکانہ بنا گئے۔ کچھ لوگ مجھے دبئی بنانے آئے تھے مگر انھوں نے مجھے دادو سے بھی بدتر بنا دیا۔کچھ لوگ اس کوٹھیک کرنے کے بجائے اس کے اکثر اداروں پر بھی قابض ہو گئے ۔ عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) اور عالمی بینک ( ورلڈ بینک ) میری صلاحیت کو جانتے ہیں ۔ وہ بھی میری صلاحیت کا اعتراف نہیں کر رہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بین الاقوانی طاقتیں میرے خلاف گزشتہ نصف صدی سے صف آرا ہیں ۔ ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے میرا اپنا سیاسی کردار نہیں بننے دیاگیا اور ہر الیکشن میں میرا مینڈیٹ چرایا گیا۔ اس مختصر کالم میں صرف میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کو بچانا ہے تو صرف میں بچا سکتا ہوں ۔ مجھے نام نہاد قوم پرستوں ، نسل اور لسانیت پرستوں ، فرقہ واریت اور انتہاپسند قوتوں سے بچایا جائے اور میرا اپنا سیاسی کردار اجاگر ہونے دیا جائے ۔ میں کراچی ہوں ۔ میں پاکستان ہوں ۔ میں وادی سندھ ہوں ۔ میں پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہوں اور ایشیا کے سر کا تاج ہوں۔

تازہ ترین