• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سنتے آئے ہیں کہ Wheel of history always moves ahead یعنی تاریخ کا پہیہ ہمیشہ آگے ہی کو پھرتا ہے مگر یہ دیکھ کر افسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت پاکستان میں Wheel of history is moving in reverse gear ۔ یہ صورتحال ہر شعبے میں ہے چاہے سیاست ہو، مذہب ہو، معیشت ہو یا انتظامی امور ہوں،گنگا الٹی ہی بہہ رہی ہے۔ اگر بات سیاست سے شروع کی جائے تو جب پاکستان وجود میں آیا تو ملک بھر میں سیاست نوابوں، سرداروں، پیروں، میروں، چوہدریوں، ملکوں اور وڈیروں کے گھر کی لونڈی تھی اور ان کے اور ان کے ڈرائنگ روموں میں نظر بند تھی۔ اس کی وجہ بھی تھی۔ یہ اسمبلیاں ”ون مین ون ووٹ“کی بنیاد پر منتخب نہیں ہوئی تھیں ان اسمبلیوں کو امراء اور شرفاء نے منتخب کیا تھا۔ یہ صورتحال تبدیل ہوسکتی تھی اگر جمہوری عمل شروع ہو جاتا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ اپنا آئین بنایا جاتا مگر یہ سب کچھ نہیں کیا گیا۔ قائد اعظم کے فوری انتقال کے بعد جو قیادت تھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے پاس کوئی Vision نہیں تھا جلد ہی ملک کی قیادت سول اور ملٹری بیورو کریسی کے ہاتھ چڑھ گئی۔ اب پاکستان نہ فقط ملک بے آئین تھا بلکہ امیر حلقوں کی کالونی تھا۔ بعد میں اس کالونی پر جنرلوں نے قبضہ کرلیا اور نواب، سردار، پیر، میر، چوہدری، ملک اور وڈیرے ان جنرلوں کے خلیفے بن گئے۔ جنرلوں نے اپنی بنیاد کو مضبوط بنانے کے لئے ملّائیت کو Patronize کیا۔ اس طرح ملک جنرلوں اور ملّائیت کے گٹھ جوڑ کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔اس پالیسی کے نتیجے میں معیشت 22خاندانوں کے شکنجے میں پھنس گئی اور ان 22خاندانوں کی ڈوریاں سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھ میں تھیں۔ اسی دوران65ء میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہوئی اور تاشقند معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، دونوں کی راہیں الگ ہوئیں۔ بھٹو حکومت سے باہر آگئے جلد ہی انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے میدانوں کی سیاست شروع کردی اور سیاست کو ڈرائنگ رومز سے گھسیٹ کے باہر لائے۔ اس طرح عوامی سیاست کا دور شروع ہوا اور پاکستان بننے کے بعد پہلی بار تاریخ کا پہیہ آگے گھومنے لگا۔ مشرقی پاکستان میں عوام کی قیادت شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور مولانا بھاشانی کررہے تھے جبکہ مغربی پاکستان میں نیپ عوامی سیاست کررہی تھی مگر بھٹو نے عوام میں ایک عجیب شعور اور اعتماد پیدا کردیا۔ نتیجے میں ایوب خان کی طاقت سکڑتی گئی ان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے اقتدار اپنے ہی ایک اور ساتھی جنرل یحییٰ خان کے حوالے کیا۔ انہوں نے پھر مارشل لاء لگایا ، انتخابات کرانے پڑے۔
جنرلوں نے ان انتخابات کو ہائی جیک کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی زیرقیادت ملک بھر میں یوم شوکت اسلام منایا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ نواز دانشور، ملّا اور دائیں بازو کے نظریہ دان مطمئن تھے کہ عوام ہار جائیں گے اور تاریخ کا پہیہ بدستور پیچھے کو ہی چلتا رہے گا مگر یہ سارے تجربے ناکام ہوگئے۔ اب تاریخ کا پہیہ جنرلوں اور ملّاؤں کے بجائے عوام کے ہاتھ میں آگیا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے انتخابات کو Sweap کرلیا۔ مغربی پاکستان میں صوبہ سرحد اور بلوچستان میں عوام دوست پارٹی نیپ کامیاب ہوئی جبکہ پنجاب اور سندھ میں عوام نے بھٹو کی قیادت میں بڑے بڑے بت گرا دیئے اور اب مغربی پاکستان میں سیاست کی قیادت پنجاب اور سندھ کے عوام کررہے تھے۔ تاریخ کا پہیہ اب آگے کی طرف گھومنے لگا مگر جنرلوں، ملّاؤں اور ان کے حواری نوابوں، سرداروں، ملکوں، چوہدریوں اور وڈیروں کو یہ صورتحال قبول نہ تھی۔
مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا، بنگالیوں نے مقابلہ کیا اور بنگلا دیش آزاد ہوگیا۔مغربی پاکستان میں بھٹو کی طرف سے سیاست کو ڈرائنگ رومز سے نکال کر میدانوں میں لانے کی وجہ سے اور ”ون مین ون ووٹ“ کے اصول کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں عوامی انقلاب آچکا ہے۔ ان صوبوں میں اس سے پہلے لوگ نوابوں، سرداروں، چوہدریوں، ملکوں، پیروں، میروں اور وڈیروں کے اشارے پر ووٹ دیتے تھے یا برادریوں کے اسیر تھے۔ 70ء کے انتخابات کے دوران عوام ان ساری غلامیوں سے آزاد ہو چکے تھے ۔ ایک طرف مغربی پاکستان کے صوبوں کے عوام میں غضب کا ابال نظر آ رہا تھا تو دوسری طرف خود فوجی سپاہیوں میں بھی اپنے حکمران جنرلوں کے خلاف ایک عجیب و غریب ردعمل نظر آیا لہٰذا جنرل یحییٰ خان کو مستعفی ہونے پر راضی ہونا پڑا مگر سوال یہ اٹھا کہ اقتدار کس کے حوالے کیا جائے۔ اب جنرلوں میں دوبارہ مارشل لاء لگانے کی ہمت نہ تھی وہ بھانپ گئے کہ اگر ایسا کیا تو ہوسکتا ہے کہ ایک طرف عوام باہر راستوں پر نکل آئیں تو دوسری طرف خود فوج کے اندر سے ردعمل کا اندیشہ تھا لہٰذا ایک سویلین سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو نیویارک سے ایمرجنسی میں بلوایا گیا۔ یہ تاریخ کا ایک عجیب فیصلہ تھا۔ شاید یہ تاریخ کے پہیئے کو الٹا چلانے کا نتیجہ تھا کہ ایک طرف پلٹن میدان ڈھاکہ میں جنرل نیازی جنرل اروڑا کے سامنے سرینڈر کررہے تھے دوسری طرف اسلام آباد میں طاقتور اور مسلح جنرل ایک نہتے سویلین ذوالفقار علی بھٹو کے آگے اقتدار سرینڈر کررہے تھے۔ اس وقت کوئی آئین نہیں تھا لہٰذا ذوالفقار علی بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر قرار دے کر ملک کا اقتدار ان کے حوالے کیا گیا۔ یہ تاریخ کا عجیب مذاق تھا۔ شاید یہ بھی تاریخ کا پہیہ الٹا چلانے کی سزا تھی۔(جاری ہے)
تازہ ترین