• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انیسویں صدی کے کسی گمنام مصور نے ایک شاہکار تخلیق کیا۔ پانی کے ایک کنویں کے باہر بیٹھی برہنہ نوجوان لڑکی، اردگرد جنگل کا پُراسرار ماحول اور چہرے پر اداسی کی ایک گہری لہر۔ اس شاہکار فن پارے کو داد دینے والے لڑکی کی جوانی اور برہنہ بدن دیکھ رہے تھے مگر اس شاہکار کے خالق کا تصور کچھ یوں تھا۔ کہیں ایک بار سچائی کا جھوٹ سے آمنا سامنا ہوا، جھوٹ سچائی سے یوں مخاطب ہوا۔ محترمہ! مبارک ہو۔ آج کتنا خوبصورت دن ہے۔ چاروں طرف سورج کی کرنیں بکھری ہیں، سرد موسم میں کیا خوبصورت تمازت ہے۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تمہاری منتظر ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس مسحور کن موسم کا لطف اٹھائیں؟ آئو ہم کسی پُرسکون مقام پر چلیں۔ کچھ وقت ساتھ ساتھ گزاریں، مستقبل کے ادھورے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کریں۔ جھوٹ پھر بولا، محترمہ! کیا آپ میری بات سے متفق ہیں؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم ان لمحات کو زندگی بھر کے لئے اپنے دلوں میں سمو لیں، سچائی نے جھوٹ کی باتوں پر یقین کیا۔ کچھ لمحے کے لئے اپنے اردگرد ماحول پر ایک نگاہ ڈالی، آسمان کی طرف دیکھا، کچھ دیر سوچا، پھر جھوٹ سے ہم کلام ہوئی، محترم! دن تو اچھا ہے۔ آپ کی باتیں بھی دل کو لگتی ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اپنے خوبصورت خوابوں کو حقیقت کا رنگ دے سکیں؟ کیا یہ ممکن ہے ایک پُر سکون مقام پر آرام دہ مستقبل بارے سوچ سکیں؟ جھوٹ بولا، یقیناً آئو میرا ہاتھ تھامو، آئو میں تمہیں خوابوں کی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں لے چلوں جہاں ہم ہوں، ہمارے سچے خواب حقیقت بنیں اور ہم ایک نئی دنیا آباد کر سکیں۔ جھوٹ اور سچائی کچھ دیر گھومتے گھماتے سپنوں کا محل سجاتے، شفاف پانی سے بھرے ایک کنویں کی جانب بڑھے۔ اردگرد جنگل کا ماحول، چہچہاتے پرندے، پُراسرار خاموشی اور تنہائی۔ دونوں کنویں کی دیوار پر ٹیک لگائے بیٹھے، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سہانے مستقبل کے گیت گنگنانے لگے۔ دونوں کے احساسات میں ایک رومانس سا محسوس ہونے لگا۔ جھوٹ نے کنویں کے پانی میں ہاتھ ڈالا، سچائی کے منہ پر کچھ چھینٹے اچھالے، پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا۔ ’’کیسا اچھا گرم پانی ہے‘‘۔ کیا ہم اس احساس کو اپنے دلوں میں مسخر کر سکتے ہیں؟ اور اگر تم چاہو تو ہم اس گرم پانی میں اتر کر کچھ خوبصورت لمحات کو زندگی بھر کے لئے اپنے جذبات میں سمو سکتے ہیں۔ سچائی جو پہلے ہی اپنی شناخت کی تلاش میں تھی اس احساس کو نظر انداز نہ کرسکی، جھوٹ کی باتوں میں آگئی، سچائی نے بھی اپنے ہاتھ سے گرم پانی کے مسحور کن احساس کو اپنے تن بدن میں محسوس کیا اور جھوٹ کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ سچائی اور جھوٹ دونوں کنوئیں کے گرم پانی میں اترے، کچھ دیر اٹھکیلیاں کیں، آنکھیں بند کئے مستقبل کے خواب سجائے، سچائی نے جھوٹ سے دل کی ہر وہ بات کہہ دی جو صدیوں سے اپنے دل میں لئے بیٹھی تھی۔ سچائی کو جینے کا ایک سہارا چاہئے تھا وہ ایک پُر سکون زندگی کی تلاش میں تھی۔ وہ دنیا میں آگے بڑھنا چاہتی تھی۔ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتی تھی۔ اس کا خواب تھا کہ دنیا اس کے سچ کو تسلیم کرے، اس کے سچے جذبات کو دل سے محسوس کرے۔ ہر طرف خوشحالی ہو، سکون ہو، کوئی دکھوں کے ہاتھوں اپنے جذبات کا قتل نہ ہونے دے۔ سچائی کو یقین تھا کہ اسے آج ایک ایسا ساتھی مل گیا ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ کر دنیا بھر میں اس کی شناخت بن سکتا ہے۔ وہ خوابوں میں گم نئی راہوں کی تلاش میں اپنی روح میں سورج کی کرنوں کی تمازت محسوس کرنے لگی تھی کہ اچانک جھوٹ نے کنویں سے باہر چھلانگ لگائی، سچائی کے کپڑے پہنے اور دوڑ لگا دی۔ سچائی خوابوں کی دنیا سے حیرت کدہ میں کھو گئی، پریشان ہوئی، زار و قطار روئی، غصہ بھی بہت آیا، گرم پانی کے مسحور کن ماحول زدہ کنویں میں ننگے بدن ہر طرف نظر دوڑائی کہ جھوٹ کہیں نظر آئے، آوازیں دیں، التجا کی، پیار بھرے انداز میں جھوٹ کو واپس بلانے کی کوشش کی، جہاں تک نظر جا سکتی تھی اسے تلاش کیا کہ کہیں اس کی زندگی کا سہارا اسے واپس مل جائے اور اس کے برہنہ بدن کو ڈھانپے مگر جھوٹ نے واپس لوٹنا تھا نہ وہ واپس لوٹا۔ سچائی برہنہ بدن شرمندگی کا بوجھ اٹھائے کنوئیں سے باہر آئی، گلیوں بازاروں میں برہنہ بدن جھوٹ کو پکارا، پوری دنیا نے سچائی کو برہنہ بدن دیکھا، کچھ نے شرمندگی کے احساس سے آنکھیں بند کر لیں تو کچھ سچائی کے برہنہ بدن کو دیکھ کر اپنی حیوانی لذتوں کی تسکین کرتے رہے، کئی ایسے بھی تھے جو لعن طعن کرتے نظر آئے مگر کسی نے اس کا برہنہ بدن نہ ڈھانپا، سچائی اپنے خوابوں کا کفن اوڑھ کر واپس کنویں کی طرف لوٹی، ایک قدم کنویں کی دیوار پر رکھا، کچھ لمحے اپنی خوابوں کی برباد دنیا کی طرف مڑ کر دیکھا اور شرم و حیا کے دعویدار لوگوں پر لعنت بھیجی اور خوابوں کے کنوئیں میں کود کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔ انیسویں صدی کی یہ داستان اکیسویں صدی کے ڈیجیٹل، سوشل، احتساب، انقلاب، انصاف اور ٹویٹ زدہ نئے پاکستان کی ایک جیتی جاگتی سچائی ہے جسے جھوٹ نے برہنہ بدن کیا۔ اس کے ارمانوں کا خون کیا، اس کے احساسات مجروح کئے، آج یہ سچائی گلی گلی جھوٹ کو پکار رہی ہے، التجا کر رہی ہے، اپنے برہنہ بدن کو شرمندگی کے احساس سے ڈھانپنے کی دہائی دے رہی ہے۔ اس کی شناخت، اس کی حرمت، اس کی پاکیزگی، اس کے مستقبل کے سہانے خواب جھوٹ کے ہاتھوں چکنا چور ہو چکے ہیں۔ انیسویں صدی کی یہ داستان اکیسویں صدی کے نئے پاکستان کی ایک ایسی سچائی ہے جو اپنے خوابوں کے بوجھ تلے جھوٹ کے ہاتھوں گہرے کنویں کے گرم پانی کے مسحور کن احساس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈوب چکی ہے۔ دکھ تو یہ ہے کہ کوئی اس بے گوروکفن لاشے کو کنویں سے باہر نکال کر ارمانوں کے قبرستان میں دفنانے کو بھی تیار نہیں اور کسی کو بھی یہ احساس نہیں کہ سچائی کے گرم پانی کے کنویں میں پڑی برہنہ لاش پورے معاشرے کو تعفن زدہ کررہی ہے۔ ذرا سوچئے، غور کیجئے، فکرمند رہئے کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟ سچا یا جھوٹ زدہ مردہ معاشرہ؟

تازہ ترین