• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد افضل خضری

دنیا بھر میں نظام ِ حکومت چلانے ، ترقیّاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے حکومت عوام سے ٹیکس لیتی ہے۔ پاکستان میںٹیکس وصولی کے لیےباقاعدہ ایک ادارہ بنام فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)قائم ہے، جو عوام سے ان کی ماہانہ یا سالانہ آمدنی کی بنیاد پر قانون کے مطابق ٹیکس وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرواتا ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی عوام کی فلاح و بہبود کے معاملات یا منصوبوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے ، توحکومت وسائل کی کمی کا رونا روتی نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ’’ٹیکس چوری‘‘ عام ہے، جس کی وجہ سےحکومت کا خزانہ خالی رہتا ہے، اسی خسارے کو پورا کرنے کے لیے ملکی و بین الاقوامی بینکس اور مالیاتی اداروں سےاُن کی من مانی شرائط اور سود پر قرضہ لینا پڑتا ہےکہ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔پاکستان کے قیام کو سات دَہائیاں بیت چکی ہیں، اس دوران کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، بہت سے سیاست دانوں نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ دعوے کیے کہ ہم حکومت میں آتے ہی کشکول توڑ دیں گے، عوام کو ریلیف ملے گا، مگراقتدار ملتے ہی ہر ایک کی زبان پر بس یہی شکوہ ہوتاہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔آئیے، جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی عوام ٹیکس چوری کرتے ہیں؟اور جو افراد ٹیکس دیتے ہیں، اُن کا پیسا کہاں جاتا ہے، کیوں کہ ذیل میں درج مختلف ٹیکسز دینے کے باوجود ’’ہم سے یہی گلہ کیا جاتا ہے کہ ٹیکس گزار نہیں‘‘۔

انکم ٹیکس ، ویلتھ ٹیکس ، وِد ہولڈنگ ٹیکس ، سیلز ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس ، پراپرٹی ٹیکس ، بلڈنگ ٹیکس، موبائل فون (سیلز ٹیکس ، ایکسائز ٹیکس ، وِد ہولڈنگ ٹیکس اور موبائل کمپنیز کا ’’لوٹ مار‘‘ٹیکس )، سروس ٹیکس ،ایکسائز ٹیکس ،موٹر وہیکل ٹیکس ، ایگریکلچر ٹیکس ، کارپوریشن ٹیکس، میٹرو پولیٹن ٹیکس، حج ٹیکس،عمرہ ٹیکس، ٹول ٹیکس ،بینک منافعے پر ٹیکس ، بچت اسکیمز کے منافعے پر ٹیکس ،وغیرہ وغیرہ یہ اور ان جیسے اَن گنت ٹیکسز ہم ہی سےوصول کیے جاتے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنا ٹیکس جاتا کہاں ہے؟ کیوں کہ عوام کو تو بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ہیں۔ ماضی میں ’’قومی بچت ‘‘کا ایک اشتہار آتاتھا ’’جو پیسا ہم بچاتے ہیں، وطن کے کام آتا ہے‘‘۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اب یہ کہنے کی نوبت آگئی ہے کہ ’’جو ٹیکس ہم دیتے ہیں، وہ کرپشن کے کام آتا ہے۔‘‘ موجودہ دَور میںایک نئی اصطلاح ’’فائلر اور نان فائلر‘‘ سامنے آئی ہے ، جس کے مطابق ہر وہ پاکستانی، جس کا نام باقاعدہ ٹیکس دہندہ کے طور پر رجسٹر ہے، صرف وہی ٹیکس دہندہ ہے ،باقی ساری قوم ٹیکس دینے کے باوجود ’’نادہندہ ‘‘ہے، حالاں کہ ماچس کی ڈبیا سے لے کر ہوائی جہاز کے ٹکٹ تک کوئی چیز ایسی نہیں ،جس پر عوام بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس نہ دیتے ہوں۔بے چارے نان فائلر کو تو یہ تک نہیں معلوم کہ وہ ٹیکس نیٹ میں آتا بھی ہے یا نہیں؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق عام آدمی اپنی ماہانہ ضروریاتِ زندگی کی خریدا ری پر بالواسطہ کم از کم ایک ہزار روپے اور سالانہ بارہ ہزار روپے سے زیادہ ٹیکس دینے کے باوجود محض نان فائلر یا ٹیکس نادہندہ کہلا رہا ہے۔عام آدمی سوال پوچھتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں جو اس نے ٹیکس دیا ، وہ کہاں گیا؟ اگر کرپشن کی نذر ہوا، تو کرپشن کا پیسا واپس لینے کے دعوے دار اب خاموش کیوں ہیں، وہ پیسا کب واپس آئے گا، منہگائی کے مارے عوام کو اس بات سے قطعی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون جیل میں ہے، کون نا اہل اور کون فرار، ارے بھئی! جس شخص کے بچّے بھوکوں مر رہےہوں، وہ ان کی دو وقت کی روٹی کی فکر کرے گا یا کرپشن کے اربوں ، کھربوں ڈالرز کی۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ مُلک میں ٹیکس چوری ہوتی ہے، لیکن وہ چور بے چارے غریب عوام نہیں، بلکہ بڑے بڑے تاجر، سرمایا کار، صنعت کار، چوہدری ، وڈیرے وغیرہ وغیرہ ہیں، جنہیں منہگائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جن کے بچّے منرل واٹر پی کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں، جو چُھٹیاں منانے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ مُلک جاتے ہیں، جو اس مُلک کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھتے ہیں۔ غریب تو بے چارہ منہگائی کی چکّی میں پستے پِستے اس دنیا سے کُوچ کر جاتا ہے۔ عوام ٹیکس دینے سے اس لیے بھی ڈرتے ہیں کہ ماضی میں کون سا اُن کا ٹیکس ، اُن پر ، اُن کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوا۔ فی الحال ضرورت اس امر کی ہے کہ ایف بی آر میں موجود کالی بھیڑوں کو نکال باہر کیا جائے اور ادارے اور ملک وقوم کو نقصان پہنچانے والے اہلکاروں کا منصفانہ احتساب کرکے لُوٹی ہوئی دولت مُلک میں واپس لائی جائے، صرف باتیں، وعدے اور دعوے ہی نہیںہوں، عملاً بھی کچھ کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس چوری روکنے کے خاطر خواہ اقدامات کرےاور احتساب کا عمل اتنا کڑا بنائے کہ آئندہ کوئی ٹیکس چوری، کرپشن یا قومی خزانے میں لُوٹ مار کا سوچے بھی نہیں۔بصورتِ دیگر ٹیکس چوری بلا روک ٹوک جاری رہے گی، سمجھ دار، ہوشیار اور چالاک لوگ اپنے اخراجات بڑھا چڑھا کر ٹیکس ریٹرن جمع کروا کےٹیکس ریفنڈ کلیم(refund claim) کے ذریعے فواید حاصل کرتے رہیں گے اور بے چارے سادہ لوح مظلوم پاکستانی عوام حسرت و یاس کی تصویر بنے صرف سوال ہی کرتے رہ جائیں گے۔

تازہ ترین