• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف کا نیا نسخہ، زندہ درگور کرنے کا فارمولا

گزشتہ دو صدیوں سے سرمایہ دارانہ نظام کا یہ کلیہ رہا ہے کہ آمدنی پر ٹیکس، بالخصوص انکم ٹیکس کا نفاذ ضروری ہے، ورنہ اس نظام کا چلنا ناممکن ہے، جب کہ پاکستان میں شوکت عزیز اور اسحٰق ڈار کے بعد مُشیرِ خزانہ، عبدالحفیظ شیخ بھی اخراجات پر بالواسطہ ٹیکسز عاید کر کے محصولات کا غیر معمولی ہدف پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ باالفاظِ دیگر پیٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ شہریوں کی قوتِ خرید پر حملہ آور ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے کرپشن کو فروغ دے کر مُلکی معیشت کو اس نہج پر پہنچایا اور معاشی بحالی انقلابی اقدامات کی متقاضی ہے، لیکن اس ’’نرم انقلاب‘‘ پر بھی کوئی آمادہ نہیں۔ یاد رہے کہ جس طرح روپے کی قدر کو مارکیٹ کی بے رحم قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا خطرناک ہے، اسی طرح یہ سوچنا بھی دانش مندی نہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد مُلک میں ڈالرز کی برسات شروع ہو جائے گی اور ڈالر کی اُڑان رُک جائے گی، کیوں کہ ماضی میں لیے گئے بے تحاشا قرضوں اور اُن پر عاید سود کی ادائیگی اس دَورِحکومت میں ممکن نہیں۔ البتہ اگر محصولات کی وصولی، ٹیکس نیٹ میں توسیع، برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی کا عمل مستقل جاری رہتا ہے، تو بہتری کی امید ہے۔ تاہم، فی الحال پاکستانی عوام شدید مشکلات سے، جن میں مستقبل میں مزید اضافہ ہو گا، دو چار ہیں، لیکن آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کو اس کی رتّی بھر پروا نہیں۔ روپے کی قدر میں گراوٹ کو روکنے کے لیے حکومت کو ڈالرز کی بڑھتی طلب پر قابو پانا ہو گا۔ دوسری جانب اگر حکومت سخت رویّہ اپناتی ہے، تو غیر رسمی معیشت سے وابستہ کاروبای افراد مزاحمت کریں گے، جس کے باعث حکومت متشدّد اقدامات پر مجبور ہو جائے گی۔

پاکستانی روپے کی بے قدری کا سبب گزشتہ 70برس کی ناقص مالیاتی پالیسیاں ہیں اور اہلِ عقل و خرد کی عدم موجودگی میں عوام کی اکثریت موجودہ معاشی اصلاحات کے ثمر بار ہونے تک شدید مالی مسائل کا شکار رہے گی۔ اس عرصے میں اشیائے صَرف کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو گا، جب کہ درمیانے طبقے کی پس انداز کی کئی رقوم پہلے ہی کنزیومر ازم کی بھینٹ چڑھ چُکی ہیں، کیوں کہ ہم دکھاوے کے غیر پیداواری اخراجات کے لیے اپنے کریڈٹ کارڈز بڑی بے دردی سے استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب کروڑوں روپے مالیت کی لینڈ کروزر رکھنے والا انکم ٹیکس ادا نہیں کرتا، جب کہ تن خواہ دار طبقہ ٹیکس کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے۔ پھر جیسے جیسے روپے کی قدر کم ہوتی جائے گی، ویسے ویسے تن خواہ دار طبقہ قوتِ خرید سے محروم ہوتا جائے گا۔ گرچہ حکومت کے بعض اقدامات دُرست ہیں، لیکن ان کے لیے وقت کا انتخاب ٹھیک نہیں۔ کرپشن کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہے اور کالا دھن مارکیٹ سے اُٹھا لیا گیا ہے، لیکن روپے کی قدر کو سرکاری کنٹرول سے باہر نکالنے کے علاوہ سٹّے بازوں، سود خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلرز کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے۔ نیز، ٹیکس کا نفاذ دُرست خطوط پر ہونا چاہیے۔

سرمایہ دارانہ نظام سے تعلق رکھنے والے سب سے بڑے معیشت دان، لارڈ کینزکا ایک موقعے پر آئی ایم ایف اور عالمی بینک پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ان کے ضابطوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے سب سے اہم بات یہ کہی تھی کہ ’’سرمایہ داری میں ترقّی کی قوتوں کو آگے بڑھانے کے لیے بدی کی قوتوں کو زیادہ منظّم کرنے کی ضرورت ہو گی۔ مثلاً، جب تک کوئی دولت کابے پناہ لالچ نہیں رکھتا، تو وہ دولت اکٹھی کر کے صنعت کاری میں نہیں لگائے گا۔ منافع خوری اور لالچ مزدوروں کے استحصال کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘ دوسری جانب مارکیٹ اکانومی میں آزادانہ مسابقت کا نتیجہ اجارہ داری کی صورت میں نکلتا ہے اور اجارہ داری سے سماج، نادار اور مال دار جیسے دو جارحانہ طبقات میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اجارہ دار مصنوعی قلّت اور مصنوعی طلب کا خود ساختہ چکر پیدا کر کے معاشی آزادی پر قبضہ کر لیتا ہے اور عوام کو منافعے کے شکنجے میں کَس کر منہگائی اور قرضوں کی دلدل میں پھنسا دیتا ہے۔ ایک موقعے پر کینز نے یہ بھی کہا کہ ’’ صنعتی و تجارتی مسابقت بالآخر منڈیوں کے لیے جنگ پر منتج ہوتی ہے، اس لیے سرمایہ دارانہ نظام میں خیر صرف منظّم بدی ہی سے برآمد ہو سکتی ہے۔‘‘ یہ سرمایہ دارانہ ترقّی کی فیصلہ کُن تعریف ہے، جب کہ اس کے برعکس کارل مارکس نے اپنے معاشی فلسفے میں یہ تاریخی بات کہی کہ ’’مارکیٹ بدیوں کی غلاظت کا ایسا ڈھیر ہے، جس میں خیر تلاش کرنا بے سود کاوش ہے۔‘‘

پاکستان کے زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اگر مارکیٹ کی بے رحم قوتوں کے فیصلوں کے نتیجے میں گزشتہ چند ماہ کے دوران روپے کی قدر 32فی صد کم ہو کر ڈالر کی قیمت 160روپے ہو گئی ہے، تو ہماری برآمدات میں بھی کم از کم 30فی صد اضافہ ہونا چاہیے، ورنہ روپے کی قدر میں کمی کا فائدہ صرف اپنے پوشیدہ خزانوں میں ڈالرز رکھنے والے ٹولے کو ہو گا۔ اگر دیانت داری کے ساتھ لوگوں کے رہن سہن، اخراجات اور پاسپورٹس کو جانچا جائے، تو یہ بات سامنے آئے گی کہ صرف 31لاکھ کمرشل میٹر رکھنے والے ہی ٹیکس چوری نہیں کرتے، بلکہ صنعت کار، آڑھتی، بڑے بڑے مالز اور ریستورانوں کے مالکان سے لے کر عام دُکان دار اور ٹھیلے لگانے والے بھی کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرتے، لیکن متعلقہ ادارے ان سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ اس وقت یہی بد عنوان عناصر ضروری حکومتی اقدامات کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، قیمتوں میں مَن مانا اضافہ کر رہے ہیں اور خوف کی فضا قائم کر کے کساد بازاری کو جنم دے رہے ہیں۔ چُوں کہ پاکستان میں اشرافیہ نے استحصال اور کارٹیلائزیشن کے ذریعے معیشت کو اپنے قابو میں کر رکھا ہے، اس لیے منہگائی کی وجہ سے غریب پِس رہا ہے اور ابھی تک قیمتوں میں مصنوعی اضافے کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ پھر پاکستان میں اینٹی ٹرسٹ ایجنسیز بہت کم زور ہیں اور ٹرسٹ کے نام پر بے یقینی اس حد تک پھیل چُکی ہے کہ اگر غریب اُٹھنے کے قابل ہوا، تو انقلابِ فرانس کی تجدید ہو سکتی ہے۔ این جی اوز سیاسی شعور کو ختم کر چُکی ہیں۔ تجارتی قوانین، ریگولیٹرز کے راستے میں رُکاوٹ ہیں اور ان اداروں میں بیٹھے زیادہ تر افراد اپنی ذات تک محدود ہیں۔ ہمارا قانونی ڈھانچا بھی کرپشن کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کرتا ہے۔سب سے زیادہ صوابدیدی اختیارات بیوروکریسی کو فوج اور عدلیہ سے بھی زیادہ طاقت مہیا کرتے ہیں۔ اسی طرح احتساب کا کم زور نظام اور آڈٹ سسٹم بھی کرپشن کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔لہٰذا، کرپشن کے خلاف جنگ کے لیے مؤثر انتظامات کرنے چاہئیں اور اس وقت ڈالرز کی نہیں، بلکہ سخت انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے، کیوں کہ آئی ایم ایف کا موجودہ نسخہ غریب اور سفید پوش طبقے کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔

تازہ ترین