• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشتاق بٹ پیپلز پارٹی کے بہت پرانے جیالے ہیں۔پڑھے لکھے نہیں ہیں مگر سیاست بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کی ملاقاتیں ذوالقفار علی بھٹو سے رہی ہیں آج کل وہ یہاں برطانیہ میں میرے پاس ہوتے ہیں اور میری غیر موجودگی میں میرے بچوں کا خیال رکھتے ہیں ان کے ساتھ اکثر پاکستانی سیاست پرگفت و شنید ہوتی رہتی ہے ۔ان سے کامران فیصل کی موت کے حوالے سے بات ہوئی تو کہنے لگے ”یہ بات تو طے ہے کہ کامران فیصل نے خود کشی کی ہے “میں نے حیرت سے پوچھا کہ اس کے قتل کے سلسلے میں یہ جو اتنے ثبوت مل رہے ہیں ۔تو کہنے لگے ”پاکستان میں ان کی کوئی حیثیت نہیں یہی ثابت ہونا ہے کہ کامران فیصل نے خود کشی کی ہے ۔“میں نے زچ ہو کر کہا ”کوئی دلیل بھی تو دیں “ تو ہنس پڑے اور بولے”آپ کو پتہ ہے نانیب نے سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں رینٹل پاورکیس میں کرپشن کے دوالگ الگ ریفرنس تیارکیے ہیں۔ ایک ریفرنس میں 22 اوردوسرے میں 16 افراد کوملزم نامزد کیا گیا ہے۔آپ جانتے ہیں یہ لوگ کون ہیں۔ان ریفرنسوں میں وزیر اعظم پرویز اشرف کے علاوہ جوملزمان ہیں ان میں سابق وزیرخزانہ شوکت ترین، سابق سیکریٹری خزانہ سلمان صدیق، سابق سیکریٹری وزارت پانی وبجلی شاہد رفیع، سابق سکریٹری سعیدالظفراوراسی سطح کے بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔چاررینٹل پاور کمینوں کے مالکان بھی ہیں جو اربوں کھربوں پتی لوگ ہیں۔“وہ یہاں پہنچ کر چپ ہو گئے اور میں نے کہا ان لوگوں کے ملزم ہونے کا کیا تعلق ہے کہ کامران فیصل نے خود کشی کی ہے ۔بٹ صاحب کھل کر ہنس دئیے اور کہنے لگے” آپ بڑے سادہ ہیں۔ذرا سوچئیے کہ یہ ثابت ہوگیا کہ کامران فیصل کو قتل کیا گیا ہے توتین سو دو کا مقدمہ انہی لوگوں کے خلاف بنے گااور ان میں چیئرمین نیب بھی شامل ہونگے جو ایک سابق ایڈمرل بھی ہیں۔کیا پاکستان میں ممکن ہے کہ اتنے بڑے بڑے لوگوں کے خلاف قتل کے مقدمے درج ہوسکیں ۔“میں نے کہا ”بٹ صاحب ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اسی طرح قتل کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی “بٹ صاحب بولے”بھٹوکو تو امریکہ نے شہید کرایا تھا جنرل ضیا کی کیا جرأت تھی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی امریکہ کے اشارے پر ہوئی ہے،بیچارہ پرویز مشرف تو کٹھ پتلی تھا“میں نے کہا ”بٹ صاحب آپ ابھی تک پرانے زمانے میں رہتے ہیں۔ وقت بدل چکا ہے آپ کو علم ہے کہ وزیر اعظم سمیت رینٹل پاور کیس کے 19 ملزمان کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا ہے۔ ملک بھر کے ائر پورٹس پر امیگریشن حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور ائر پورٹس پر وی آئی پیز گیٹ بند کر دیئے گئے ہیں۔“بٹ صاحب بولے ”اللہ آپ کی زبان مبارک کرے مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ جس دن ان میں سے کسی نے جانا ہوا چیف جسٹس خود ایئرپورٹ پر تشریف لے آئیں تو پھر بھی اسے نہیں روک سکیں گے“
بٹ صاحب سے مایوسی بھری گفتگو بیزار ہو کر میں نے کمپیوٹر آن کیا توروزنامہ جنگ کے صفحات سے اطلاع ملی کہ کامران فیصل کی لاش کو قبضے میں لینے کی کشمکش شروع ہو چکی ہے ہے۔اور مجھے خیال آیا کہ شاید اس بات کا مقتول کے ورثا کو پہلے سے خطرہ تھا اس لئے انہوں نے قبر پر گارڈز کی تعیناتی کیلئے درخواست دی تھی جس پرضلعی انتظامیہ نے وہاں سیکورٹی فراہم کردی تھی۔خبر یہ تھی کہ قتل یا خود کشی کے معمہ کو حل کرنے کیلئے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے وفاقی حکومت سے قبر کشائی کی اجازت مانگی تھی جو نہیں دی گئی ۔الٹا جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ خود وفاقی حکومت نے قبر کشائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے جب وفاقی حکومت نے لاش سے نمونے حاصل کرکے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو ہی بھیجنے ہیں تو خود اس ادارے کو قبر کشائی کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایسے فرانزک ٹیسٹوں کیلئے پاکستان میں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی ہی ایک واحد ادارہ ہے ۔لگتا ہے کہ وفاقی حکومت کو اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کامران فیصل کی لاش اپنے قاتل کا نام نہ بتا دے۔میرے خیال کے مطابق پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی شراکت کے بغیر وفاقی حکومت کی طرف سے قبر کشائی کا معاملہ مشکوک ہے سپریم کورٹ فوری طور پر اس معاملہ میں دخل اندازی کرے بلکہ غیرملکی فرانزک ماہرین بھی بلالئے جائیں توزیادہ بہتر ہوگا۔
دراصل وفاقی حکومت اور اس کے تحقیقاتی اداروں میں کام کرنے والے اس کیس میں بہت بری طرح پھنس چکے ہیں۔بڑی بڑی مچھلیوں کو بچاتے بچاتے چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی ملازمتیں داؤ پر لگ چکی ہیں۔اب اگرلاش کا دوبارہ پوسٹ مارٹم ہوتا ہے اوراس سے حاصل ہونے والے شواہد پوسٹ مارٹم کی پہلی رپورٹ کے برعکس ہوتے ہیں تو اسلام آباد کے چھ ڈاکٹر وں کی نوکری نہ چیئرمین نیب بچا سکے گا اور نہ وزیر اعظم پاکستان ۔ اب صدر زرداری ان کیلئے کوئی آرڈیننس جاری کرنے سے تو رہے۔کیونکہ ایک جرم تو ان ڈاکٹروں کا پہلے ثابت ہوچکا ہے کہ انہوں نے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو فرانزک رپورٹ کے لئے نامکمل جسمانی نمونے بھیج کر کہا کہ پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ فرانزک رپورٹس کے بعد جاری کی جائے گی۔پھر کامران فیصل کی لٹکی ہوئی لاش کی ویڈیو فوٹیج جو ہر پاکستانی کے موبائل فون میں موجود ہے۔اس کے بارے میں ویڈیو فرانزک کے ماہرین کیا کہتے ہیں ۔وہ موبائل فوٹیج کس نے بنائی تھی وہ خود سامنے کیوں نہیں آیا ،اس فوٹیج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لاش اسی لئے پولیس سے آنے سے پہلے اتار لی گئی تھی کہ اس کے میز پر پڑے ہوئے پاؤں صاف بتا رہے تھے کہ رات کو اس کمرے میں کیا ہوا تھا ۔وہ کمپیوٹر جو فیصل کامران استعمال کرتا تھا کیا وہ بھی کسی کمپیوٹر فرانزک کے ماہر کو دیا گیایا نہیں۔اگر دیا گیا تو اس نے کیا رپورٹ دی ہے۔اسلام آباد میں ایف آئی اے کے پاس کمپیوٹر فرانزک کا پورا شعبہ موجود ہے۔
اور پھر اس کیس کی بنیاد پر جو خط چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ کے خلاف صدر مملکت کو تحریر کیا ہے ۔اس پر سپریم کورٹ کا رویہ کیسا ہوگا ۔یہ سوال بھی بڑا خوفناک ہے کہ ایسا کیا معاملہ ہے کہ چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔یہ کتنا خطرناک عمل ہے اس کے نتائج سے چیئرمین نیب اچھی باخبر ہیں ۔ پھر آئندہ آنے والی نگران حکومت اس کیس کو کس انداز میں دیکھے گی ۔اور بھی بہت سے سوال ہیں جو تمام صدر ہاؤس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔سناہے صدر ہاؤ س میں بلائیں ٹالنے کیلئے ہر ایک دو ہفتوں بعد کالے بکروں کی قربانی دی جاتی ہے ۔لگتا ہے اس مرتبہ بیچارے چوہدری پرویز اشرف کی قربانی دی جائے گی۔
تازہ ترین