• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شادی میں فضول تام جھام کو آپ ہی ختم کرسکتی ہیں ،لوگوں کی پروانہ نہ کریں جوڑے کو دعاؤ ں میں رخصت کریں

عندیل علی

شادی بیاہ کی تقریبات میں قسم قسم کے کھانے کھلانے کا رواج کیا عام ہوا، بات تکلف سے نکل کر تکلیف تک جا پہنچی۔ ہم من حیث القوم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ پتہ نہیں کس بات کا بدلہ لیتے ہیں۔ لڑکی کے والدین جہاں اسباب جہیز کی لمبی فہرست سے خوف زدہ نظر آتے ہیں وہیں وہ دعوت کے کھانے کے سلسلے میں خاندان بھر کے دبائو میں رہتے ہیںکہ ’’ دعوت کا کھانا تو زور دار ہونا چاہئے۔‘‘ کچھ خواتین تو منہ پر ہی کہہ دیتی ہیں کہ جہیز تو گھر والوں کا ہوتا ہے، مہمانوں کو تو صرف کھانا ہی ملتا ہے ۔ یہ تمام چیزیں اس مہنگائی کے دور میں ایک عام گھر کے لئے شاد ی جیسے فریضے کو انجام دینا خاصا مشکل بنا دیتی ہیں۔ اس کے باوجود اکثر لوگ عیب جوئی سے باز نہیں آتے۔سلامی کے نام پر چند سو روپے دے کر بڑے خوش ہوتے ہیں اور کھانے میں ہزاروں خامیاں بھی نکالتے ہیں ۔

اب تو شادی کی تقریب کے لئے جگہ کا تعین بھی بہت مشکل امر ہو گیا ہے۔ آدھے لوگ چاہتے ہیں ، اوپن ائر میں انتظام ہواورآدھے بینکوئٹ کے خواہاں ہوتے ہیں اور کچھ کا ارمان ہوٹل میں عشائیہ تناول کرنے کا ہوتا ہے۔ جب کہ بزرگ چاہتے ہیں کہ تقریب گھر کے باہر ہی منعقد کی جائے،تاکہ خاندانی ماحول برقرار رکھا جا سکے۔ لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا اتنا پیسہ آئے گا کہاں سے۔ ایسے میں اگر لڑکی کا باپ مجبوری اورتنگی کی وجہ سے ون ڈش کی بات بھی منہ سے نکالتا ہے تو ایک شورمچ جاتاہے،باہر والے تو دور کی بات گھر والے ہی باتیں بنانے لگتے ہیں۔کئی لڑکیوں کا باپ کتنے عشایئے منعقد کروائے گا ! ایک لڑکا کتنے نفوس کو اپنے ولیمے پر بلائے گا۔ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس طرح کرنے سے میزبانوں کی معاشی حالت پر کیا اثر پڑےگااور یہ آج جو فرمائشیں ہم کر رہے ہیں کل ہمیں بھی پوری کرنی پڑیں گی ۔آخر ہم کیوں شادی جیسے مقدس فریضہ کو ایک ڈرائونا خواب بنا رہےہیں! کیوں سادہ سی تقریب پر اکتفا نہیںکرتے ہیں۔؟ معاشرے کی یہ رسومات بھی صاحب ثروت احباب کی خواہش کا نتیجہ ہوتی ہیں، جو کم حیثیت والوں کے لئے سب سے بڑا امتحان بن جاتی ہیں۔ دولت مند وں کے لیے یہ سارا تام جھام کوئی معنی نہیں رکھتا ،کیوں کہ پیسے والوں کو تو اپنے پیسے خرچ کرنے کابہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ لیکن کرائے کے مکان میں رہنے والے کا حشر خراب کر کے مقروض بنادیتے ہیں اور کچھ لوگ احساس کمتری کاشکار بھی ہوجاتے ہیں کہ اگر کم لوگوں کو مدعو کیا تو لوگ کیا سوچیں گے ؟ کم لوگوں کو شادی میں بلایا اور دو پکوان رکھے ۔ پیسے کے اس کھیل میں اگر کوئی پستا ہے تو وہ طبقہ ہے، جو جیسے تیسے معاشرے میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے ہاتھ پائوں مار تا ہے۔ شادیوں میں بے جا اسراف روکنے کے لئے ماضی میں حکومتی سطح پر مختلف قوانین منظور کئے گئے تھے۔ کاش! ون ڈش کا قانون دوبارہ نافذ کر دیا جائے۔ شادی ہالوں میں بجلی کے استعمال کی بھی حد لاگو کر دی جائے۔ لیکن یہ طے ہے جب تک ہم خود اپنے آپ کو نہیں بدلیںگے ،مسائل ہم پر حاوی ہی رہیں گے۔ خوشی میں شریک ہونے کے لئے نیک نیت درکار ہوتی ہے، پکوان نہیں۔ نوبیاہتا جوڑے کو آپ کی دعائیں چاہیے ہوتی ہیں۔ کئی سا ل تک چلنے والا قرض نہیں۔ ہم سب کو چاہیےکہ ہم ذمے دار شہری بنیں ۔یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ ہائے اگر دعوت میں کسی چیز کی کمی رہ گئی تو کیا ہوگابلکہ اپنی حیثیت کے مطابق اہتمام کرنے کی کوشش کریں ۔

تازہ ترین