• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقت کو ماپنا ہو، معاشی ترقی کو جانچنا ہو یا پھر ماضی کے دریچوں سے مستقبل میں جھانکنا ہو، انفرادی و اجتماعی زندگی کے بیشتر فیصلوں کا انحصار ریاضی پر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قدیم چین میں ریاضی کو ہی ترقی کا زینہ بنایا گیا۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے رہنے والوں نے سب سے پہلے ریاضی کی اہمیت و افادیت کا اِدراک کیا اور اعشاری نظام تیسری صدی عیسوی سے یہاں مستعمل تھا۔ ریاضی کے میدان میں صفر کی دریافت بہت اہم پیشرفت تھی جس کا کریڈٹ ہندوستانی ریاضی دان لیتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ قلعہ گوالیار میں پہلی بار زیرو لکھا گیا اور پھر یہ قلعہ ریاضی میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اہمیت اختیار کرگیا۔ صفر ایسا جادوئی عدد ہے جو کسی بھی دوسرے عدد سے ضرب کھا کر اسے زیرو کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ زیرو کسی بھی ہندسے کے بائیں جانب ہو تو بہت بے ضرر معلوم ہوتا ہے مگر جیسے ہی یہ کسی ہندسے کے دائیں طرف آتا ہے تو اس کی قدر بڑھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ ریاضی کو تمام علوم کے لئے شاہ کلید کی حیثیت حاصل ہے جس سے سب تالے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں جانے کیوں ریاضی سے بیزاری کا رجحان عام ہے اور اسے محض حساب کتاب تک محدود کردیا گیا ہے۔ اسکولوں میں ریاضی کو ناپسندیدہ ترین مضمون سمجھا جاتا ہے۔ کسی کو جیومیٹری سے نفرت ہے تو کسی کو الجرا سے چڑ۔ جیسے تیسے آٹھویں جماعت تک ریاضی پڑھنے کے بعد سائنس اور آرٹس کے نام پر تقسیم کا مرحلہ آتا ہے تو قافلہ چھوٹ جاتا ہے اور بیشتر طالبعلم ریاضی سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ سائنس میں دلچسپی رکھنے والے طالبعلم بھی دو سال بعد ایف ایس سی میں داخلہ لیتے ہیں تو انہیں پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے نام پر تقسیم کردیا جاتا ہے اگر آپ نے پری میڈیکل کا انتخاب کیا تو ایک بار پھر ریاضی کا عمل دخل ختم ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی بھر ہمیں ملین، بلین اور ٹریلین کا فرق معلوم نہیں ہو پاتا اور یہ نہیں جان پاتے کہ کس میں کتنے زیرو ہیں۔ ریاضی سے لاعلمی کے باعث قوم شعبدہ بازوں کے کھوکھلے نعروں اور چکنی چپڑی باتوں میں کھو جاتی ہے اورایک بار پھر منزل کھوٹی ہوجاتی ہے۔ شاید فیصلے کرنے والوں کی ریاضی بھی اتنی ہی کمزور ہوتی ہے جتنی کسی عام آدمی کی، اس لئے وہ حالات و واقعات کا درست تخمینہ نہیں لگا پاتے۔

ہمیں لگتا ہے کہ سخت فیصلے کرنے کے سبب حالات مشکل ضرور ہیں مگر ملک امن اور ترقی کی مثبت سمت میں ترقی کر رہا ہے۔ اگر ریاضی کی شدھ بدھ ہوتی تو ہم ہرگز اس مغالطے کا شکار نہ ہوتے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی معاشی حالت بھانپنے کا ایک پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے کتنے ذخائر موجود ہیں۔ آپ محض سیاسی نعروں کے بجائے حقائق جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ پر جاکر زرمبادلہ کے ذخائر کا گراف ضرور دیکھیں۔ 2012-13میں اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں کے پاس مجموعی طور پر 11019ملین ڈالر تھے۔ جون میں مالی سال ختم ہوا جبکہ اس سے پہلے 11مئی2013 کو انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت آچکی تھی۔ اگلے برس یعنی2013-14میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 14141ملین ڈالر ہو گئے۔ 2014-15میں مزید اضافہ ہوا تو زرمبادلہ کے ذخائر 18699ملین ڈالر ہوگئے۔ 2015-16میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر پہنچ گئے اور اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ فارن ایکسچینج ریزورز کی تعداد 23098ملین ڈالر ہو چکی ہے۔ اس دوران پانامہ کا ہنگامہ برپا ہوا، اچانک انکشاف ہوا کہ ملک کی باگ ڈور چوروں اور ڈاکوئوں کے ہاتھ میں ہے، منتخب وزیراعظم کے خلاف جے آئی ٹی بنا دی گئی تو سرمایہ بھاپ کی مانند اُڑنے لگا۔ 2016-17میں زرمبادلہ کے ذخائر 21402ملین ڈالر ہوگئے۔ وزیراعظم کو عدالتی فیصلے کے نتیجے میں گھر بھیج دیا گیا، ملک سیاسی عدم استحکام کی لپیٹ میں آگیا، جوڈیشل ایکٹواِزم نے رہی سہی کسر پوری کردی، اس دوران نگران حکومت آئی جس کا کام معیشت کو سہارا دینا نہیں بلکہ الیکشن کروانا ہوتا ہے اس لئے 2017-18میں زرمبادلہ کے ذخائر 16383ملین ڈالر رہ گئے۔ ان میں سے 9765ملین ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس تھے جبکہ 6618ملین ڈالر کمرشل بینکوں کے پاس موجود تھے۔ اس دوران انتخابات ہوئے، ہمیں بتایا گیا کہ تبدیلی کی صبح خوش جمال کا سورج طلوع ہو چکا ہے اور ہم نئے پاکستان میں داخل ہوگئے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونا شروع ہوگئے، ہم نے دوست ممالک کی منت سماجت کی، سعودی عرب نے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لئے 3بلین ڈالر دیئے جن پر سالانہ 3فیصد سود ادا کرنا ہے، متحدہ عرب امارات نے 3بلین ڈالر ہمارے اکائونٹ میں ڈال دیئے، قطر کی طرف سے 3بلین ڈالر کے پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا جس میں سے 500ملین ڈالر اسٹیٹ بینک کو دیئے جا چکے ہیں، چین سے 2.2بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا مگر اس دوڑ دھوپ کے باوجود ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 28جون 2019تک 14443ملین ڈالر ہیں جن میں سے 7272ملین ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں جبکہ 7170ملین ڈالر کمرشل بینکوں کے ہاں لوگوں نے جمع کروا رکھے ہیں جنہیں ہم اپنے کھاتے میں ظاہر کر کے خوش ہوتے رہتے ہیں۔ جو 7272ملین ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ہیں وہ بھی دوست ممالک سے اُدھار مانگے ہوئے ہیں جو خرچ نہ کرنے کی شرط پر دیئے گئے تھے اور کسی بھی وقت واپس مانگے جا سکتے ہیں۔

ایک اور غلط فہمی یہ ہے کہ پاکستان کو قرضوں کے جال میں جکڑ دیا گیا ہے اور ہر پاکستانی ایک لاکھ 27ہزار روپے کا مقروض ہے اس لئے ہمارے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ اگر ریاضی پڑھی ہوتی تو معلوم ہوتا کہ قرض لینے میں کوئی حرج نہیں اگر اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمی بڑھے اور پیداوار میں اضافہ ہو۔ اس وقت امریکہ 22ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے اور ٹریلین میں کتنے صفر ہوتے ہیں یہ معلوم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جاپان نے 9.5، چین نے 4.6، برطانیہ نے 2.5جبکہ بھارت نے 1.1ٹریلین ڈالر کا قرض لے رکھا ہے۔ ہر پاکستانی 900ڈالر کا مقروض ہے تو ہر جاپانی 90345ڈالر جبکہ ہر امریکی 6700ڈالر کا مقروض ہے مگر ان ملکوں میں کوئی بحرانی کیفیت نہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو قرضوں کا حجم 6435ارب تھا جو بڑھ کر 15096ارب ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) نے ان قرضوں پر سود کی ادائیگی اور توانائی کے منصوبے لگانے کے لئے مزید قرض لیا تو پاکستان کے ذمہ قرض بڑھ کر 26968ارب ہوگیا۔ ان قرضوں سے معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوا، لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی، اگر بریک نہ لگائی جاتی تو ہم اب قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں ہوتے۔ قرضے لینے میں کوئی حرج نہیں، موجودہ حکومت بھی نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے مگر تشویش یہ ہے کہ ان قرضوں کے باوجود معیشت کا پہیہ نہیں چل رہا۔ قرضے تب دُکھتے ہیں جب آپ مقررہ مدت میں ان سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ مثال کے طور پر لاہور میں اورنج ٹرین کا منصوبہ سیاست اور پشاور بی آر ٹی منصوبہ نااہلی کی نذر نہ ہوتا تو آج دونوں منصوبے مکمل ہو چکے ہوتے اور ان سے آمدن ہو رہی ہوتی مگر قرض واپس دینے کا وقت آگیا ہے اور ابھی تک یہ منصوبے مکمل نہیں ہوئے۔

تازہ ترین