• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر کوئی شعر پاکستان کے ہمہ وقت جاری حالات کی درست عکاسی کر سکتا ہے اور اسے بلا شبہ اس کا قومی ترانہ قرار دیا جا سکتا ہے ، وہ منیر نیازی کا حسرت و یاس میں ڈوبا ہوا یہ شعر ہے…” اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔“ اور دو ”دریاؤں “ کے درمیان کی اس سرزمین کے باسیوں کو نفسیاتی الجھنوں نے اس قدر گھیرا ہوا ہے کہ ہر موج ایک سونامی ( جس سے بچنا) ، اور ہر پتھر ایک ہمالیہ(جس پر سے گزرنا) ہے…․ اور ہر دو ابتلاؤں کے درمیان دم مارنے کی بھی گنجائش نہیں ہے۔
قادری صاحب کی طرف سے دی گئی پے در پے دھمکیوں اور وارننگز ، جو پانی کے جھاگ کی طرح بیٹھتی گئیں… 111 بریگیڈ نے نہیں آنا تھا، نہ آیا… حتیٰ کے جناب کے نعرے چیخوں اور پھر آہوں میں تبدیل ہوگئے، تاہم کوئی کم عقل انسان ہی کہہ سکتا ہے کہ اب انتخابات سے پہلے تمام راہ صاف ہے او ر تمام ذہنی الجھنوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ہر گز نہیں اور ایسا سمجھنا کم عقلی ہے کیونکہ ہمارے ہاں ٹھوس معروضی مسائل ایک بات ہیں لیکن اصل مسئلہ تو التباسات کا ہے جنھوں نے بھوتوں کی طرح ہمارے تخیلات پر ڈیرہ جمایا ہوا ہے ۔ ہماری پیچیدہ اور تہہ دار نفسیات طلسم ہوشربا کا وہ سلسلہ ہے جہاں ہو ش میں آنا مشکل ہے۔
اگراس اسلامی جمہوریہ میں کاریں پانی سے چل سکتی ہیں… اور جتنے قد آور لوگ اس آبی کار کی حمایت کر رہے تھے، یہ کوئی بچوں کا کھیل نہ تھا… اور امریکہ کے مشرقی ساحلوں پر تباہی مچانے والاسینڈی طوفان ہمارے مفتیان عظّام کے مطابق کسی احمق کی طرف سے بنائی گئی توہین آمیز فلم پر ملنے والی سزا تھی اور اگر میرے دوست ڈاکٹر اے کیوخان نے ایک بم بناکر قوم کو بچانے کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہو تو سمجھ لیں کہ ہمارے ذہنی مسائل سوچ سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ ان تفکرات سے ایک اور پریشان کن سوچ ابھرتی ہے… کیا ہم، جیسا کہ ہمارے دانشور دعویٰ کرتے ہیں، واقعی خدا کے انتہائی قریب ، بلکہ محبوب ، ہیں کہ یہ وطن آسمانی طاقتوں کی خصوصی توجہ سے معرض ِ وجود میں آیا؟ کس کافر کی مجال ہے کہ اس عقیدے کا کفر کرے !کیا اس سے یہ سوچ بھی نہیں پیدا ہوتی کہ اگر ہم اس قدر قریب ہیں تو پھر ہماری حماقتیں بھی تو بہت زیادہ نظر میں ہوں گی اور بہت جلد خالق ِ ارض و سما ہم سے اکتا جائے گا؟ خدا کے غضب کے بارے میں تو ہم مقدس کتاب میں پڑھتے ہیں لیکن اگر اُسے اس ”خاص تخلیق “ (ہمارے دعوے کے مطابق) نے مایوس کیا تو کیا ہو گا؟
میری جنرل(ر) حمید گل سے بہت پرانی شناسائی ہے اور ہم (امید ہے کہ پاکستان دفاع کونسل والے اس کا برا نہیں منائیں گے) گاہے بگاہے فون پر بات بھی کرتے ہیں۔ میں اُ ن کا مشکور ہوں کہ وہ مجھے پرہیزگاری ، بلکہ پارسائی ، کے درس سے نوازتے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ میں ان کی نصیحت پر کان دھرتا ہوں، اور جیساکہ آپ کو علم ہے کہ وہ اپنے مخاطب کو بہت جلد قائل کرلیتے ہیں، لیکن اس پر عمل کرنے میں ایک چھوٹی سی رکاوٹ مانع ہے اور اس کا تعلق محترم حفیظ جالندھری کے لافانی نغمے، جس کو ملکہ پکھراج نے سروں کے موتیوں میں پرو دیا، سے ہے․․․”ابھی تو میں جوان ہوں۔“سینٹ آگسٹائن کی مشہور دعا اکثر کو یاد ہو گی جو اُنھوں نے جوانی ، جب وہ عقیدے اور جذبات کی الجھن میں تھے، میں کی․․․”اے خدا مجھے پارسائی کے راستے پر چلانا… لیکن ابھی نہیں۔“سینٹ آگسٹائن عیسائیت میں بہت بلند مقام رکھتے ہیں لیکن کیا یہ دعا ہم گناہ گاروں کے لبوں پر کچھ مسکراہٹ نہیں بکھیر دیتی؟اگر اکابرین کا یہ عالم ہے تو عام لوگ، جو خطا کے پتلے ہیں، ان کو کس 62 اور63 کی چھلنی میں چھانا جائے ؟
ہماری موجودہ اسمبلی، جو اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہے، کوہماری تاریخ کی انتہائی بے کیف اسمبلی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی آمروں یا جمہوری آمروں کی اسمبلیوں کو ہم نے دیکھا ہے لیکن اُن میں بہت جاندار سیاست دان ہو تے تھے۔ اگرچہ میں خود بھی اسی اسمبلی کا حصہ ہوں لیکن یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ اس اسمبلی نے قومی خدوخال پر اپنا کوئی اثر نہیں چھوڑا ہے۔ اس کی مدت کے دوران ہم سب کی عمروں میں پانچ سال اضافہ ہونے کے سوا اور کچھ نہیں ہوا ہے۔ کیا اس سے بڑا کوئی اور سوگوار واقعہ ہو سکتا ہے؟اگر اس اسمبلی کے کارہائے نمایا ں کو ایک عنوان کے تحت لانا ہو تو مرزا غالب (معذرت کے ساتھ کچھ ترمیم) کا یہ مصرعہ موزوں رہے گا․․․” بیٹھے ’رہے‘ تصور ِ ’جاناں ‘کئے ہوئے۔“شعری ترمیم کی اور بات ہے، پلیز اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کا ذکر نہ کیجیے گا۔جب میں ان کاغذی کامیابیوں کا ذکر سنتا ہوں تو میرا ہاتھ بے ساختہ اپنے پستول کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ گورنگ کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے کلچر کے بارے میں سن کر اُس کے بھی یہی خیالات تھے۔ وکلا کی تحریک نے بھی میرے اندر ایسے ہی جذبات پیدا کر دئیے تھے۔ جب میں ایک مشہور وکیل کے منہ سے ”آئین اور قانون کی بالا دستی “ کی بات سنتا ہوں میرا ہاتھ بے ساختہ پھولوں کے گلدان (یہ پتھر کا گلدان اُن کے لئے پستول کی نسبت مناسب رہے گا)کی طرف اٹھ جاتا ہے۔ بہرحال وقت کی دھول میں ڈگمگاتے ہوئے قدموں کے ساتھ یہ مسافر، موجودہ اسمبلی، اپنی منزل کے قریب ہے۔ خدا کرے تاریخ مرحومہ کو اچھے الفاظ میں یاد رکھے۔ اگر ، جیسا کہ تجویز ہے، آئین کے آرٹیکلز 62 اور63 کا نفاذ کیا جائے تو پھر اسمبلی میں کون ہوگا… شاید دراز لبادوں میں ملفوف منافقت کی چلتی پھرتی تصویریں! کم ازکم ایک مرتبہ ان آرٹیکلز کو لاگوکر یں تاکہ اکتاہٹ کی ماری اس قوم کی تفریح کا بھی کوئی سامان ہو ۔ ذرا تصور کریں کہ جب میں اپنے کاغذات ِ نامزدگی جمع کراتے ہوئے ریٹرننگ آفیسر کو سینٹ آگسٹائن کی مذکورہ بالا مشہور دعا (اور ساتھ ملکہ پکھراج کے نغمے )کا حوالہ دوں گا تووہ صاحب کیا کہیں گے؟
بات کہاں سے کہاں جا نکلی، میں قادری صاحب کی آتش بیانی ، جو بعد میں معجزانہ طور پر”گلزار “ ہو گئی، کا ذکر کر رہا تھا ، کے بعد کچھ سادہ لوح یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب انتخابات کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ عرض ہے کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ وہ ملک ہے جہاں سازش کی تھیوریوں نے آب ِ حیات پی رکھا ہے۔ ایک دریا (منیر نیازی والا) کے پار بمشکل اترتے ہی ہیں کہ دوسرے سے سامنا ہو جاتا ہے(اگر نہ ہو تو خود ہی فرہادی، یعنی دریا کھودنا، شروع کردیتے ہیں)۔ اگرچہ شیخ الاسلام اپنے اصل (ملک ؟) کی طرف لوٹ رہے ہیں لیکن ہمارے سیاسی پنڈتوں کے ذہن سے یہ خوف نہیں جاتا کہ کچھ ہونے والا ہے اور یہ کہ انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ان اوہام کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھا۔ اگر کوئی یہ بھی سوچتا ہے کہ پی پی پی واقعی ڈاکٹر قادری کے ساتھ مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہے تو وہ اپنی عقل کا علاج کرائے۔ ایک بہت بڑے وفد کی صورت میں ڈاکٹر قادری کے پاس ملاقات کے لئے جانا صرف پی ایم ایل (ن) کو زچ کرنے کیلئے تھا…․․اس ضمن (زچ ہونے) میں پی ایم ایل (ن) کسی کو مایوس نہیں کرتی۔ آئین کے آرٹیکلز 62 اور63 کا تذکرہ محض منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ہے، ان کو نافذ کرنا مقصود نہیں ہے کیونکہ زرداری صاحب بھی انتخابات کرانے میں اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں جتنی کہ نواز شریف۔ چنانچہ وہ کسی پارسائی کے چرنوں میں ان کو قربان کیوں ہونے دیں گے؟ڈاکٹر صاحب کی ”عطائیت “ کا دور لد گیاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ہم سے زیادہ سازش کی تھیوریاں تیار کرنے اور پھیلانے میں کوئی مستعد نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ معاملہ یہ نہیں کہ تاریخی طور پر ہم ان افعال میں سند کا درجہ رکھتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کرنے کو اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر آپ اسلام آباد یا لاہور میں بیٹھ کر سیاست پر بات نہ کریں تو اور کیا کریں گے؟یہ قوم اس لق و دق صحرا کی اسیر ہے جہاں کوئی کیکٹس بھی نہیں کھلتا، جہاں خواب میں بھی سراب ہے۔ میں زیادہ تر وقت کلبوں اور ہوٹلوں میں بسر کرتا ہوں اور کبھی اپنے گاؤں والے بنگلے پر لیکن یہ سوچ جاگزیں رہتی ہے کہ اب ”دل کے بے کیف کواڑوں کو مقفل “ کر دینا چاہیے۔ اس تنہائی میں شاید پارسائی کی طرف دھیان چلاجائے۔ شاید اسی لئے قوم ایک دریا سے گزرنے کے بعد خواب دیکھنے لگتی ہے کہ شاید کوئی مسیحا آجائے… اتنی دیر میں آنکھ کھلتی ہے اور ایک دریا درپیش ہوتا ہے، چنانچہ…․”اب سرِ منظر فقط اک بادباں اور ایک میں۔“
تازہ ترین