• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل (ر) پرویز مشرف کے عزیز لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کے اعترافات نے مجھے ماضی کی طرف متوجہ کیا۔ میں نے 1999ء کے اواخر کے اخباری ریکارڈ سے رجوع کیا۔ کم وبیش ایسی ہی فضا بنائی گئی تھی جو ان دنوں بنائی جارہی ہے ۔ میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی کرپشن کے قصے زبان زدعام تھے۔ جی ڈی اے کے فورم سے علامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری تقاریر کررہے تھے کہ کارگل آپریشن کے ذریعے فوج کشمیر فتح کرنے کے قریب تھی لیکن وطن سے غداری کا ارتکاب کرکے میاں نوازشریف نے اسے گنوادیا۔ وہ فوج کو ”آئینی کردار“ ادا کرکے میاں نوازشریف کی زیرقیادت سسٹم کو لپیٹنے کی دعوت دئے جارہے تھے ۔ جماعت اسلامی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر عمل درآمد کے نعرے کے ساتھ انتخابات کا بائیکاٹ کرچکی تھی۔ وہ میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دے کر احتساب کا مطالبہ کررہی تھی۔ 1997ء کے انتخابات میں ناکامی کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان بھی سسٹم سے مایوس نظرآرہے تھے اور گاہے بگاہے پاکستان میں طالبان طرز کے انقلاب کی صدائیں بلند کررہے تھے۔ عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ پنجہ آزمائی کی وجہ سے یہ دونوں ادارے بھی میاں نوازشریف کے خلاف تھے ۔ موجودہ صورت حال کی طرح اداروں کے مابین تناؤ آخری حدوں کو چھورہا تھا اور مجموعی طور پر میڈیا اور عدلیہ فوج کے ساتھ کھڑے نظرآرہے تھے۔ افواہیں پھیل رہی تھیں اور یہ انتظار کیا جارہا تھا کہ کونسا ادارہ پہل کرے گا۔ میاں نوازشریف نے پہل کی ناکام کوشش کی لیکن پہلے سے بغاوت کے لئے تیار فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا(میں نہیں کہتا لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز فرمارہے ہیں کہ اقتدار پر قبضے کے لئے فوجی قیادت پہلے سے تیاری کرچکی تھی) ۔ اصل وجوہات بتانے کی بجائے تب پرویز مشرف نے سیاسی قیادت کی کرپشن کو بنیاد بنا کر احتساب کا نعرہ بلند کیا۔ ان کی وہ تقریر جس میں انہوں نے ملکی تقدیر بدلنے کے لئے سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا ‘ میرے سامنے ہے۔ اس کا آغاز وہ کچھ یوں کرتے ہیں کہ :
Bismillah -Ar-Rehman-Ar-Rahim
My dear countrymen, Assalam O Alaikum:
Pakistan today stands at the crossroads of its destiny a destiny which is in our hands to make or break. Fifty-two years ago we started with a beacon of hope. Today that beacon is no more and we stand in darkness. There is despondency, and hopelessness sarrounding us with no light visible anywhere around. The slide down has been gradual but has rapidly accelerated in the last many years.
Today, we have reached a stage where our economy has crumbled, our credibility is lost, state institutions lie demolished, provincial disharmony has caused cracks in the federation, and people who were once brothers are now at each other's throat.
In sum, we have lost our honour, our dignity, our respect in the community of nations. Is this the democracy our Quaid-e-Azam had envisaged? Is this the way to enter the new millennium?
Let us not be despondent. I am an optimist I have faith in the destiny of this nation; belief in its people and conviction in its future. We were not a poor nation as generally perceived. In fact we are rich. We have fertile land that can produce three crops a year. We have abundant water to irrigate these lands and generate surplus power. We have gas, coal and vast untapped mineral resources ? and above all a dynamic and industrious people. All these await mobilization. We have only to awaken, join hands and grasp our destiny. For Allah helps those who help themselves.
جنرل پرویز مشرف کے اس تاریخی خطاب کو ایک طرف رکھ کر میں نے ایک بار پھر ان کے دست راست اور عزیز ‘ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ سے رجوع کیا۔ اس کے پیش لفظ کا آغاز میں وہ لکھتے ہیں کہ :
”فوجی نوکری کے آخری ایام تک تو کچھ ایسا نہ کیا تھا جس پر ان مٹ ندامت ہوتی ‘ پھر جو کچھ اس درد دل کی خاطر کرگزرا اور جس انجام پر اس ملک کو پہنچایا ‘ آج اس کے بوجھ تلے پس رہا ہوں ۔ ویسے تو زندگی میں جو بھی کیا ‘ اکیلے ہی کیا۔ کوئی ساتھ دینے پر آمادہ ہی نہ ہوتا تھالیکن جو بھی کیا وقت نے اسے پھیر دیا۔ کچھ بھی بدلا نہیں ۔ پھر بھی مجھ سے جو بن پایا ‘ میں کرتا رہا۔ اکیلے ہی ۔ پھر فوجی زندگی کے آخری موڑ پر‘ قانون توڑ کر ‘ کسی اور کا ساتھ دیا اور سب کچھ بدل گیا۔ پاکستان کا مطلب بھی‘ ہماری پہچان بھی‘ قوم کی تقدیر بھی‘ قبلہ بھی ۔ لیکن جو بدلنا چاہا تھا ‘ جوں کا توں ہی رہا۔ بلکہ اور بگڑ گیا۔ ایک چمکتے ہوئے خواب کو حقیقت میں بدلتے بدلتے ‘ اس میں اندھیرے گھول دئے ۔ صرف ایک دن ہاتھ میں لگام تھی ۔ 12 اکتوبر 1999ء۔ پھر اس کے بعد پاؤں بھی رکابوں میں نہ رہے ۔ اب لکھنا کیا؟۔ اب عمر کے اس آخری حصے میں برہنہ ہونے پر کوئی کیا دیکھے؟“
تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں لیتا۔ اس لئے ایک بار پھر کچھ لوگ سیاسی قیادت کی نااہلیوں اور کرپشن کا رونا رو کر پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ بلند کئے ہوئے ہیں ۔ جماعت اسلامی کی بجائے اب ایک اورصاحب کو بیرون ملک سے درآمد کرکے ان کے زبان پر 62 اور63 کا نعرہ چڑھا دیا گیا ہے۔ اداروں کے مابین تناؤ کو تصادم میں بدلنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور بدقسمتی سے خود سیاسی قیادت بھی بعض اوقات دانستہ یا غیردانستہ اس عمل کا حصہ بنتی نظر آرہی ہے ۔ ہم پرامید ہیں کہ کوئی دوسرا حادثہ رونما نہیں ہوگا کیونکہ یہ ملک کسی اور حادثے کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن خواہشات کی کوئی حد نہیں ۔ ماضی کی طرح ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے کسی صاحب یا صاحبان کی طرف سے مہم جوئی کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے ۔ خاکم بدہن اگر ایسا ہوا تو ماضی کی طرح خیر ذرا بھر برآمد نہیں ہوگا ۔ مہم جوؤں کا نعرہ جو بھی ہو‘ شاید وہ اچھی نیت سے اقدام کرگزریں لیکن تاریخ کا سبق یہی ہے کہ خیر نہیں شر میں اضافہ ہوگا‘ امن نہیں آئے گا بدامنی بڑھے گی‘ کرپشن کم نہیں ہوگی ‘ مزید بڑھے گی‘ رہی سہی روشنی کی جگہ بھی اندھیرے لے گی ۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ مہم جوؤں کا انجام وہی ہوگا جو پرویز مشرف کا ہوگیا ہے اور جو لوگ ان دنوں ان مہم جوؤں کو ورغلارہے ہیں ‘ وہ ان کے دسترخوان سے مستفید ہونے کے بعد جنرل شاہد عزیز کی طرح چند سال بعد اسی طرح اپنی گناہوں کااعتراف کرکے گواہی دیں گے کہ:
” لیکن جو بدلنا چاہا تھا ‘ جوں کا توں ہی رہا۔ بلکہ اور بگڑ گیا۔ ایک چمکتے ہوئے خواب کو حقیقت میں بدلتے بدلتے ‘ اس میں اندھیرے گھول دیئے ۔ صرف ایک دن ہاتھ میں لگام تھی ۔ 12 اکتوبر 1999ء۔ پھر اس کے بعد پاؤں بھی رکابوں میں نہ رہے ۔ اب لکھنا کیا؟ اب عمر کے اس آخری حصے میں برہنہ ہونے پر کوئی کیا دیکھے؟“۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت قوم کو مایوس کرتی جارہی ہے لیکن تاریخ کا سبق یہی ہے کہ تسلسل ہی جمہوریت کی تطہیر کا ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے تاریخ کا یہ بھی سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیتا۔
تازہ ترین