• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچے ہمارا مستقبل ہیں لیکن جس طرح وہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے پیدا کئے جارہے ہیں، بلا کسی احتیاط کے پل رہے ہیں، زیادہ بڑی تعداد تو اسکول نہیں جا پاتی جو جاتے ہیں انہیں کیا پڑھایا جارہا ہے۔ ہم بزرگوں کی اس لا پروائی کا جو نتیجہ نکل سکتا ہے وہ کئی دہائیوں سے ہمارے سامنے ہے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور Stuntedنسلیں پیدا ہو رہی ہیں۔ کسی کا وزن عمر کے مطابق نہیں، کسی کی قامت وزن سے غیر متعلق ہے۔ اپنی تمام تر جفاکشی اور دن رات محنت کے باوجود پاکستانی قوم زندگی کی وہ آسانیاں حاصل نہیں کر پارہی جو اس کا حق ہے۔ بچے غریبوں کے ہوں یا امیروں کے، انہیں وہ توجہ نہیں ملتی جو کسی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے ناگزیر ہوتی ہے۔

60اور 70کی دہائی میں تو پاکستان میں یہ فکر سنائی دیتی تھی کہ آبادی بڑھ رہی ہے، وسائل محدود ہیں۔ اس لئے شرح پیدائش کم کرنے کے لئے کچھ کوششیں ہونا چاہئیں لیکن 1979کے بعد اتنے سنگین مسائل کا غلبہ ہو گیا کہ اس موضوع کی اہمیت کم ہوتی گئی۔ غریبوں کی اکثریت ہے، زیادہ مشکلات کا سامنا بھی غریبوں کو ہے لیکن بچے بھی وہی زیادہ پیدا کرتے ہیں۔ اس بے احتیاطی کی وجہ سے بچے حادثات کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ ہم خود اپنے مستقبل کو ہلاک کررہے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ریاست ہر بچے کی پرورش کی نگہداشت کرتی ہے۔ اتنے سخت قوانین میں کہ ماں باپ اپنے بچوں کا اتنا خیال نہیں رکھ پاتے جتنا ریاست کرتی ہے۔ کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو ریاست بچے کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔

ہمارے ہاں انسان جو اللہ تعالیٰ کا نائب ہے، اپنی وقعت نہیں پہچانتا۔ ریاست دوسرے معاملات میں الجھی رہتی ہے حالانکہ ریاست انسانوں سے ہی ہے۔ جو بھی بچہ پیدا ہورہا ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لئے غذا، اچھے ماحول، مناسب تعلیم کا اہتمام کرے۔ یہاں ریاست سے مراد کچھ ادارے ہو گئے ہیں۔ میں اگر بچوں کے معاملے میں ریاست کی ذمہ داری پر زور دوں گا تو کہیں والدین یہ نہ سمجھیں کہ اب بچے بھی ان اداروں کی تحویل میں چلے جائیں گے۔ آج مجھے بچے اس لئے یاد آرہے ہیں کہ آج دنیا بھر میں یوم آبادی منایا جارہا ہے۔ پہلے آبادی میں اضافے کی شرح سے ملکوں کا جائزہ لیا جاتا تھا جیسے پاکستان میں یہ شرح 2.4فیصد ہے، جو محدود وسائل کے حوالے سے خطرناک ہے۔ بہت پہلے ایک تصویر دیکھی تھی کہ ایک روٹی ہے۔ اس کی طرف چار ہاتھ بڑھ رہے ہیں۔ اب تو یہ ہاتھ دگنے تگنے ہو گئے ہیں۔ آبادی کے ماہرین نے اب اصطلاح بدل دی ہے۔ اب قوموں کی بہتری کا معیار یہ ہے کہ وہاں contraceptive prevalence rate (CPR)کیا ہے۔ پاکستان نے دنیا سے یہ عہد کیا ہے کہ 2020یعنی پانچ مہینے بعد۔ 15سے 49سال کی عمر کی بناتِ وطن جو پیدائش میں وقفے کے لئے کوئی طریقہ بھی استعمال کررہی ہیں، اس وقت 100میں صرف 35ہیں، اگلے سال ان کی تعداد 50تک ہو گی۔ ہر معاملے میں ہمارا مقابلہ بھارت سے ہوتا ہے وہاں آبادی میں اضافے کی شرح 1.19فیصد بتائی جارہی ہے اور سی پی آر میں بھی وہ 53.5فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ چین ہمارا دوست ہے، وہاں مانع اضافہ طریقے اختیار کرنے والوں کی تعداد 84.6فیصد ہے۔ ناروے سب سے آگے ہے وہاں 88.4فیصد ہے۔ دیکھیں غور کریں۔ جن ملکوں نے اس اہم مسئلے کے حوالے سے شعور پیدا کیا وہاں سسٹم بھی بہتر ہوا۔ زندگی کی آسانیاں بھی میسر آئیں۔ یہی وہ ملک ہیں جہاں جانے کے لئے ہمارے نوجوان سمندروں اور جنگلوں سے گزرتے ہیں۔ اگر ہم یہ معاملات اپنے ہاں درست کر لیں، یہ آسانیاں فراہم کردیں تو ہمارے یہ لاڈلے، بڑھاپے کے سہارے، کیوں پردیس جائیں۔

اور تو اور افریقہ کا بد قسمت ملک روانڈا ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ 1990کی دہائی میں وہاں قیامت کی خانہ جنگی ہوئی۔ ایک قبیلے نے دوسرے قبیلے کا قتلِ عام کیا۔ آفریں ہے روانڈا والوں پر کہ انہوں نے مفاہمت کی تاریخ رقم کردی۔ اب وہاں کئی ایسے مثالی گائوں ہیں جہاں قاتل، مقتول کے لواحقین کے ساتھ رہتے ہیں۔ دل سے معافیاں مانگی گئیں۔ انسانیت کی اعلیٰ اقدار کیلئے ایک ہو گئے۔ اب ان کے شہر صاف ستھرے ہیں، کھیت سونا اگل رہے ہیں۔ یہ مناظر مجھے ایک درد مند پاکستانی ڈاکٹر طالب لاشاری نے بتائے جو چند برس پہلے بہبودِ آبادی کی ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے روانڈا گئے تھے۔ میں نے روانڈا پر تحقیق کی۔ 68سالہ نکندیا نے لارنس مکالمیرا کے خاوند کو خانہ جنگی میں قتل کیا تھا۔ اب وہ دیوار بہ دیوار ہمسایہ ہیں۔ نکندیا کہتا ہے کہ ’’جیل کاٹنے کے بعد میں نے خاتون سے معافی مانگی، اپنے جرائم کا اعتراف کیا۔ اس نے میری معافی قبول کرلی۔ اب میں اپنے بچے بھی اس کے پاس چھوڑ جاتا ہوں‘‘۔ روانڈا کے ان واقعات نے میرا دل موہ لیا ہے۔ انسان شدید وحشت کے بعد پھر انسان بن سکتا ہے۔ اس عظیم تبدیلی پر میں مطالعہ کر رہا ہوں۔ کسی وقت تفصیل سے بات کریں گے۔ روانڈا میں بھی مانع اضافہ آبادی کے استعمال کی شرح دس سال میں 4فیصد سے 51فیصد تک جا پہنچی ہے۔ قوم بیدار ہو گئی ہے۔ 30سالہ بیٹرس کہتی ہے ’’میرے لئے تین بچے کافی ہیں، زندگی بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ میں اپنے انہی بچوں کو صحت مند، خوش اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بنائوں گی۔ اس سے زیادہ میری استطاعت سے باہر ہیں‘‘۔

18ویں ترمیم کے بعد اب صحت اور آبادی کی منصوبہ بندی صوبوں کے پاس آگئی ہے۔ عام طور پر سندھ میں ابتر حکمرانی کی شکایت ہے لیکن اس شعبے میں سندھ کی کارکردگی دوسرے صوبوں سے نسبتاً بہتر ہے۔ پاکستان نے عالمی سطح پر آبادی میں اضافہ روکنے کیلئے جو وعدے کئے ہوئے ہیں ان کی تکمیل کیلئے سندھ میں صحت اور آبادی کے شعبے ایک ہی وزیر کے پاس ہیں۔ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو، قومی اسمبلی کی رکنیت کے زمانے سے ہی اس مسئلے پر توجہ دے رہی ہیں۔ خاموشی سے وہ اس خطرے سے آگاہی اور بیداری کیلئے مصروف ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو متحرک کیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں سے رابطہ کیا جارہا ہے۔ 256پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینکوں کو مراکزِ صحت قرار دیا گیا ہے۔ سکھی گھر کا خواب اپنی تعبیر پارہا ہے۔

تازہ ترین