• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جو کہتے ہیں ، رسی جل گئی بل نہیں گیا۔ ہمیں یہ بات جنرل شاہد عزیز کی کتاب پر پرویز مشرف کے ردِعمل سے یاد آئی۔ موصوف کو بڑی بے آبروئی کے ساتھ ”جلاوطن“ ہوئے چار سال گزر گئے لیکن ابھی تک مزاج کا تلنگا پن نہیں گیا۔ پاک فوج کے سابق سربراہ کی طرف سے جو بد قسمتی سے پاکستان کی صدارت پر بھی قابض رہا اپنی ہی فوج کے ایک سابق کور کمانڈر ، سابق چیف آف جنرل سٹاف اور نیب کے سابق سربراہ کو ”کریکٹر لیس“ اور ذہنی طور پر ان بیلنسڈ اور ڈی ریلڈ قرار دینا کس اخلاقی معیار کی نشاندہی کرتا ہے؟ ہر محبِ وطن پاکستانی کو بجا طور پر فخر ہے کہ پاک فوج کا شمار دنیا کی سات ، آٹھ بڑی افواج میں ہوتا ہے۔ اس کا ڈسپلن اور پروفیشنل ازم بھی بلاشبہ اہلِ پاکستان کے لئے فخر کی بات ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بد قسمتی سے اس کی قسمت میں جنرل یحییٰ خاں اور پرویز مشرف جیسوں کی سربراہی بھی لکھی گئی اور مزید بدقسمتی یہ کہ ہماری تاریخ میں سقوطِ مشرقی پاکستان ، سیاچین اور کارگل کے مس ایڈونچر جیسے ”کارنامے“بھی موجود ہیں ۔ 1965 کے آپریشن جبرالٹر کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا سنا اور لکھا پڑھا گیا۔ پرویز مشرف نے کارگل کے حوالے سے جنرل شاہد عزیز کے موقف کو اپنی کردار کشی کی مہم کا حصہ قرار دیتے ہوئے ”بکواس “کہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک کامیاب آپریشن تھا۔ یہ کوئی جنگ نہیں تھی اور نہ ہی اس سے ایٹمی جنگ کا کوئی خطرہ تھا۔ اس آپریشن میں ائیر فورس کا کوئی کام نہیں تھا اور نہ ہی اسے بتانے کی کوئی ضرورت تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ نواز شریف واشنگٹن گئے اور سرنڈر کرآئے ۔ وہ کارگل آپریشن کے حوالے سے نوا ز شریف کو اعتماد میں لینے کا دعویٰ بھی کرتا رہتا ہے ، حالانکہ اس نے دورہ چین کے دوران جنرل عزیز (چیف آف جنرل سٹاف ) کو جو ٹیلیفون کال کی اور جسے بھارتی انٹیلی جنس نے ٹیپ کرلیااس بات کا ثبوت ہے کہ اس آپریشن سے وزیراعظم کو لاعلم رکھا گیا تھا۔ جنرل مشرف کے دعووں کے برعکس عسکری تجزیہ نگاروں کی بڑی تعداد کارگل کو مشرف اور اس کے دو ، تین قریبی رفقاء کا مس ایڈونچر قرار دیتی ہے ۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان کشیدگی اور بد اعتمادی کا آغاز کارگل سے ہی ہوا تھا جو 12 اکتوبر 1999 کو وزیرِ اعظم کی طرف سے آرمی چیف کی برطرفی اور اس کے ردِ عمل میں پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق مشرف کے وفادار دو ، تین جرنیلوں کی طرف سے وزیراعظم اور ان حکومت کے خلاف فوجی کاروائی پر منتج ہوا۔ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ کارگل آپریشن کو ایک ناکام اور بے مقصد آپریشن قرار دیتے ہیں ۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خاں اسے پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ قرار دیتے ہیں جس میں بے شمار معصوم جانیں بلا مقصد ضائع کر دی گئیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف پاکستان کی رسوائی ہوئی بلکہ کئی معصوم لوگ اور ان کے خاندان بے ضرورت شدید مشکلات کا شکار ہو گئے۔ دلّی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کا خواب دیکھنے والے جنرل حمید گل بھی اسے پاک فوج کی تاریخ کا ناکام ترین منصوبہ قرار دے چکے ہیں۔ (The Most illplanned and illconceived Operation ) ۔ یہاں جی ایچ کیو کے سابق مشیر سائیکلو جکل آپریشنز ڈاکٹر سید مطیع الرحمن کی رائے کا بیا ن بھی مناسب ہو گا۔ ”کارگل آپریشن کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ یہ 120 کلو میٹر سے بھی بڑے محاذ پر پھیلا ہوا تھا، وزیراعظم اور کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے علم میں لائے بغیر شروع کیا گیا۔ بھارت نے نہ صرفِ محاذِجنگ پر اس کا بھرپور جواب دیا بلکہ سفارتی سطح پر بھی وہ زبردست مہم چلائی کہ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کے ماتحت کام کرنے والے ”چار کے ٹولے“ کو اس کا جواب دینا مشکل ہو گیا۔ جب فوج کو اندازہ ہوا کہ بھارت بڑے بھرپور انداز میں جوابی کاروائی کر رہا ہے اور پاکستانی فوجی جوانوں کی اموات میں اضافہ ہور ہا ہے تو جنرل مشرف کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ وزیراعظم کو اس بات پر آمادہ کریں کہ بھارت کوجنگ کا دائرہ کار بڑھانے سے روکنے کے لئے امریکہ کی مدد حاصل کی جائے۔ نواز شریف کو لپک کر امریکہ جانا پڑا تاکہ صدر کلنٹن سے درخواست کریں کہ وہ بھارت کہ جنگ کا دائرہ وسیع کرنے سے باز رکھیں اور پاکستانی دستوں کو واپسی کا محفوظ راستہ دلوائیں۔ جنرل مشرف نے اپنی کتاب ”ان دی لائن آف فائر“ میں جو دیگر حقائق مسخ کئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو کچھ فوجی کاروائی میں حاصل کیا گیا تھا، سفارتی محاذ پر گنوا دیا گیا۔ یہ پاکستان کے وزیرِ اعظم سے سخت نا سپاسی اور ناشکر گزاری کا رویہ ہے ۔ بدقسمتی سے نا اہل فوجی کمانڈروں کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ کبھی اپنی شکست کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے قبول نہیں کرتے اور اس بات کا تجزیہ کرنے کی بجائے کہ ان سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں ، اپنی ناکامیاں دوسروں کے سر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں(بحوالہ کرنل اشفاق حسین کی کتاب Witness to Blunder ) ۔اس موقع پر کارگل کے حوالے سے امریکن سینٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل انتھونی زینی کی کتاب Battle Ready کی کچھ سطور بھی قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہونگی ۔ جنرل زینی کی اس کتاب میں پینٹا گون اور پاکستان کے جی ایچ کیو کے درمیان سدا بہار خوشگوار تعلقات کا بیا ن بھی ہے اور دونوں طرف کے جرنیلوں کی ذاتی دوستیوں کا احوال بھی جو اس وقت بھی قائم رہیں جب واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ یہ کارگل بحران سے پہلے کی بات ہے جنرل زینی کے بقول وہ پاکستان کے نئے چیف آف آرمی سٹاف(پرویز مشرف) سے ملاقات کیلئے اسلام آباد آئے اور دونوں میں بڑی تیزی اور آسانی سے قربت پیدا ہو گئی۔ زینی کے بقول ایٹمی دھماکوں کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کے باوجود یہ زبردست ملاقات تھی۔ رخصتی سے قبل ہم نے طے کیا کہ ہم قریبی رابطہ رکھیں گے۔ ہم نے اپنی رہائش کے ٹیلیفون نمبرز کا تبادلہ بھی کیا ۔ ہماری یہ دوستی آگے چل کر نہایت مفید اور قابلِ قدر ثابت ہوئی۔ کارگل کے زمینی حقائق ، ہندوستانی چوکیوں پر پاکستان کے قبضے اور ہندوستان کی جوابی کارروائی کا ذکر کرنے کے بعد جنرل زینی لکھتے ہیں، فائر کا تبادلہ اور فورسز کی موبلائزیشن ہو رہی تھی۔ بموں کے حملے جاری تھے ۔ جہاز گرائے جا چکے تھے۔ ایک وسیع تر جنگ کے آثار نظر آرہے تھے۔ صورتحال تشویشناک ہوتی جارہی تھی۔ ایسے میں صدر کلنٹن کی طرف سے مجھے ایک مشن کے سربراہ کے طور پر پاکستان جانے کیلئے کہا گیا۔ میں نے 24 اور 25 جون کو پاکستانی قیادت سے ملاقات کی۔ لیکن پاکستانی قیادت کیلئے مسئلہ قومی وقار کا تھا ۔ انہیں اس بحران سے نکلنے کیلئے فیس سیونگ درکار تھی ۔ ہم نے اس کیلئے انہیں صدر کلنٹن سے ملاقات کی پیشکش کی ، جس سے اس تنہائی اور سردمہری سے نکلنے کی راہ بھی نکل آتی جو ایٹمی دھماکوں کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان موجود تھی۔ جنرل مشرف نے وزیرِ اعظم نواز شریف سے کہا کہ وہ میر ی بات سن تو لیں۔ نواز شریف کو صدر کلنٹن سے ملاقات سے قبل کارگل سے انخلا پر تذبذب تھا (مسئلہ وہی قومی وقار کا تھا) بالآخر وہ رضامند ہو گئے اور جولائی میں کلنٹن سے ملاقات طے پاگئی۔
انہی دنوں صدر کلنٹن کی کتاب ”مائی لائف “ منظرعام پر آئی تو اس میں کچھ صفحات کارگل کے متعلق بھی تھے۔ انہوں نے لکھا ، ”4 جولائی کو ہماری ملاقات بلئیر ہاوٴس میں ہوئی، ایک مرتبہ پھر نواز شریف نے مجھ پر زور دیا کہ میں کشمیر کے مسئلے میں مداخلت کروں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اگر پاکستان کے فوجی دستے کارگل سے واپس چلے جاتے ہیں تو میں واجپائی پر زور دوں گا کہ وہ مذاکرات پھر سے شروع کرے۔ ہم نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھاکہ لائن آف کنٹرول کی صورتحال کو بحال کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں اور تشدد کی کاروائیاں ختم ہونے کے بعدمیں مذاکرات کی بحالی کی حوصلہ افزائی کروں گا۔ انہی دنوں امریکہ کے سابق نائب وزیرِ خارجہ اسٹروب ٹالبوٹ کی کتاب Emerging India بھی مارکیٹ میں آگئی جس کے مطابق 4 جولائی 1999 کو صدر کلنٹن سے ملاقات میں نواز شریف نے کہا کہ وہ کارگل سے فوج واپس بلانے کو تیار ہیں بشرطیکہ بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا ٹائم فریم دے اور اس کے اندر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا وعدہ کرے۔ نواز شریف کا موقف تھا کہ کارگل سے یکطرفہ طور پر واپسی کیسے ہوسکتی ہے۔ وہ اس کیلئے اپنی قوم کو کیا جواب دیں گے؟ تو صدر کلنٹن نے کہا ، آپ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں ایٹمی جنگ کو روکنے کیلئے یہ کر رہے ہیں۔ اگر آپ اس پر تیار ہو جائیں تو میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام مسائل کے حل کے لئے بھارت پر دباوٴ ڈال سکتا ہوں ۔ جنرل شاہد عزیز کی کتاب نے کارگل کے مسئلے کو پھر زندہ کر دیا ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ اس پر ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا جائے جو معاملے کے تمام پہلووٴں کو منظر عام پر لائے اور یوں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
تازہ ترین