• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب پورا چاند نکلا تو میں تھر کی نیم ریگستانی تنہائی میں، فلاحی اداروں میں کام کرنے والے چند دوستوں کے ہمراہ، ایک گاؤں سے نگر پارکر کے شہر یا بستی کی طرف جارہا تھا۔ ڈبل کیبن کے پچھلے حصے میں ہم کھلے آسمان کے نیچے، پالتی مارے بیٹھے تھے اور جاڑے کی چاندنی کے سحر میں، اپنے آپ میں گم تھے۔ تب، ایک طرف دور برقی قمقموں کی ایک قطار روشن ہوگئی۔ یہ بھارت اور پاکستان کی سرحد تھی۔ ہمارے علاقے میں بجلی کے نہ ہونے کے سبب، اس روشنی نے ماحول کو زیادہ پرافسوں بنادیا۔
تو یہ ان بے شمار یادوں میں سے ایک ہے جو میں نے چھ دن کے مسلسل سفر میں سمیٹی ہیں۔ یہ سفر اپنے ملک کے کتنے مختلف اور متضاد مناظر پر محیط تھا اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگایئے کہ اگر ایک طرف تھرپارکر کا سانس لیتا ہوا سناٹا تھا تو دوسری طرف اسلام آباد کی ایک ایسی محفل کہ جس میں سیاست داں اور مبصر ملک کی موجودہ صورتحال کے شور میں اپنی بات کہنے کی کوشش کررہے تھے۔ ہوا یہ کہ تین دن میں نے تھرپارکر میں گزارے۔ پھر کراچی میں محض دم لے کر، دو دن کے لئے لاہور گیا اور وہاں سے اسلام آباد کا رخ کیا اور جب بدھ کی رات کراچی پہنچا تو گویا سانس پھولی ہوئی تھی اور ذہن میں ملاقاتوں، مناظر اور محسوسات نے ایک ہلچل مچا رکھی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہاں کسی ایسے سفر نامے کی گنجائش نہیں کہ جس میں کئی کہانیاں سنائی جاسکیں یا مثلاً، سیاسی اور سماجی نوعیت کے مشاہدات کا حوالہ ہو۔ اصل موضوع تو وہ انتشار ہے جو انتخابات کے انعقاد کو غیریقینی بنائے دے رہا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کراچی میں بہنے والے خون سے کس مضمون کی سرخی لکھی جاسکتی ہے۔ لیکن میں بار بار یہ کہنے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ ہر روز کی چیختی ، چنگھاڑتی سرخیوں سے دور، معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ زیادہ اہم ہے۔ ٹیلیویژن کے ٹاک شوز اس کی طرف کم توجہ کرتے ہیں۔ عام لوگ جو زندگی گزارتے ہیں اور معاشرہ جس انداز میں کروٹیں بدل رہا ہے، اس کو سمجھے بغیر حالات حاضرہ کا صحیح تجزیہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے میں صرف اس ملاقات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو تھرپارکر جاتے ہوئے، بدین میں ایک مختصر پڑاؤ کے دوران ہوئی۔ میں سماجی بہبود سے منسلک ایک تنظیم کا مہمان تھا اور بندوبست یہ کیا گیا تھا کہ بدین کی سول سوسائٹی کے سرکردہ افراد سے ملاقات ہو اور وہ اپنے ضلع کے حالات سے ہمیں آگاہ کریں۔ وہاں، کالج کے ایک استاد اور مقامی دانشور نے اپنی طویل تقریر میں کچھ ایسی باتیں کیں کہ میرے جذبات میں ہیجان پیدا ہوگیا۔ لوگوں کی مفلسی اور محرومی کی ایک ایسی تصویر انہوں نے پیش کی کہ دل بھر آیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ انہوں نے اپنے بیان میں غربت کو ذلت سے جوڑے رکھا۔ یعنی ہمارے موجودہ طبقاتی نظام غریبی کا تعلق صرف مالی اور معاشی محرومی سے نہیں ہے، غریب ایک ذلت کی زندگی گزارتے ہیں کہ جیسے انہیں انسان ہونے کا تقدس بھی حاصل نہیں ہے۔
دو نکتے ایسے ہیں جن کا میں خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے آپ اس بات پر غور کریں کہ بدین میں تیل نکلتا ہے۔ پورے ملک کی تیل کی پیداوار میں اسے سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ دوسری طرف، پورے ملک میں جو سب سے غریب اور پسماندہ اضلاع ہیں، ان میں بھی بدین کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ بدین کی آبادی کا ایک بڑا حصہ انتہائی غربت میں اپنی زندگی بسر کررہا ہے۔ قدرتی وسائل اور محرومی کی یہ سنگت، ہمارے ملک کے دولتمند حکمرانوں کی ذہنی مفلسی کا پتہ دیتی ہے۔ بلوچستان کی کہانی آپ کے سامنے ہے۔ خود تھرپارکر بھی اس کی ایک مثال ہے کہ یہاں کوئلے کے غیرمعمولی ذخائر دریافت کئے جاچکے ہیں۔ سوئی گیس کی داستان تو اب پرانی ہوچکی۔ سوال یہ ہے کہ جن علاقوں میں قدرتی وسائل موجود ہیں وہاں انسانی وسائل کی ترقی کے لئے فیصلہ کن اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے۔ وہاں کی آبادی کو اس قابل کیوں نہیں بنایا جاتا کہ اسے دوسرے علاقوں میں آنے والوں سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہو۔ بہرحال، یہ تو ایک نکتہ ہوا۔ دوسری بات ذرا زیادہ پیچیدہ ہے اور بدین کے دانشور نے اسے ایک پراثر اور ڈرامائی انداز میں پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تھر کے غریب لوگ، دنیا سے کٹ کر جو زندگی گزارتے ہیں تو ان کے تو وہم و گمان میں یہ بات نہیں آسکتی کہ مسلسل بہتا ہوا پانی بھی دنیا میں کہیں ہوسکتا ہے۔ پانی کبھی ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح، مثلاً بدین کے وہ بدنصیب لوگ جنہیں دونوں وقت پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا کسی ایسی دنیا کا تصور ہی نہیں کرسکتے جس میں لوگ ہر روز، جی بھر کر کھانا کھاتے ہوں۔ آپ کو اپنے ذہن پر زور ڈالنا پڑے گا اس روح فرسا محرومی کے مضمرات کو سمجھنے کے لئے۔ یہ وہ محرومی ہے جو زندہ رہنے کا حوصلہ ہی نہیں، خواب دیکھنے کی صلاحیت بھی ختم کردیتی ہے۔ ہمارے خواب ہماری سوچ اور تجربات اور تصورات سے آگے تو نہیں جاسکتے۔ غربت اور ذلت کے زنداں میں۔ ایک محدود زندگی گزارنے والے ان دنیاؤں کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں جن کا انہیں کوئی علم ہی نہیں۔ کیا بازار میں بھیک مانگنے والی بچی یہ سوچ سکتی ہے کہ وہ اپنے ملک کی وزیراعظم بن جائے؟ لیکن اگر سب انسان برابر ہیں اور معاشرے میں سماجی انصاف کا ایک مستحکم نظام قائم ہوسکتا ہے تو ایسے معجزے بھی سوچے جاسکتے ہیں۔
بدین کی اس محفل میں مجھے منیر نیازی کی ایک نظم یاد آئی جو میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ آپ ذرا اس کی معنویت پر توجہ کریں۔ اس کا عنوان ہے: ”سپنا آگے جاتا کیسے … “۔
”چھوٹا سا اک گاؤں تھا جس میں
دیئے تھے کم اور بہت اندھیرا
بہت شجر تھے، تھوڑے گھر تھے
جن کو تھا دوری نے گھیرا
اتنی بڑی تنہائی تھی جس میں
جاگتا رہتا تھا دل میرا
بہت قدیم فراق تھا جس میں
ایک مقرر حد سے آگے
سوچ نہ سکتا تھا دل میرا
ایسی صورت میں پھر دل کو
دھیان آتا کس خواب میں تیرا
راز جو حد سے باہر میں تھا
اپنا آپ دکھاتا کیسے
سپنے کی بھی حد تھی آخر
سپنا آگے جاتا کیسے…“
تازہ ترین