• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابا جی کبھی کبھی ترنگ میں ہوتے تو اُن کی کیفیت دیدنی ہوتی۔ گفتگو کرتے اور قدرت کے رازوں کو سادہ الفاظ میں بیان کرتے چلے جاتے۔ یہ ایک طرح سے حجاب اٹھانے اور کائنات الٰہی کی جھلک دکھانے کی محفل ہوتی۔ بات کرتے کرتے رک جاتے جیسے اجازت کے منتظر ہوں۔ اجازت مل جاتی تو زبان رواں ہو جاتی ورنہ اُسی مقام سے مجلس برخاست کر دیتے۔ جب انسان کا صحیح معنوں میں روحانی رشتہ مستحکم ہو جائے تو وہ اپنے احوال کا خود مالک نہیں رہتا۔ اُس کا ہر قدم، ہر سفر اور ہر بات اجازت کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ وہ اُسی راستے پر چلتا ہے جو اُس کے لئے طے کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو رضائے الٰہی اور رضائے مرشد کے حوالے کر دیتا ہے اور خود دنیا سے مکمل طور پر آزاد ہو جاتا ہے۔ بابا جی کبھی کبھی کہتے میں اپنی مرضی کا مالک نہیں، میری باگ میرے مرشد کے ہاتھ میں ہے، جن کا انتقال ہوئے دہائیاں گزر چکی تھیں۔ دنیا والے خوشی کو دولت، عہدے، شہرت جام و مستی، عزت اور زلفِ یار میں تلاش کرتے ہیں اور پھر کیف و مستی کے چند مصنوعی لمحوں کے بعد ڈپریشن، پچھتاوے اور گہری اداسی کی وادی میں اتر جاتے ہیں جبکہ اللہ والے حضرت علی بن عثمانؒ ہجویری (المعروف داتا صاحب) کے الفاظ میں ’’جب بندہ خدا کی رضا اور اختیار کو دیکھ لیتا ہے تو وہ اپنی مرضی اور اختیار سے منہ موڑ کر ہر غم و فکر سے نجات پا جاتا ہے‘‘۔ گویا ہم دو دنیائوں میں رہتے ہیں۔ ایک طرف دنیا کے عقلمند اور عالم و فاضل بندے ہیں جو کتابیں پڑھ پڑھ کر خوش رہنے کے طریقے بتاتے ہیں، انسان حرص و ہوس میں ڈوبا خوشی پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا۔ ’’خدا کے راضی ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ بندے کو ثوابِ نعمت اور کرامت سے نوازے اور بندے کا خدا سے راضی ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ اُس کے فرمان پر عمل کرے اور اُس کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دے‘‘۔ (کشف المحجوب) مقامِ تسلیم و رضا بذاتِ خود ایک ایسی منزل ہے جو کسب اور عطا سے حاصل ہوتی ہے۔ کسب کا مطلب انسان کی اپنی محنت یعنی عبادات، مجاہدات اور قربِ الٰہی کے حصول کی لگن اور عطا سے مراد مرشد کی نگاہ یا عطائے الٰہی ہے۔ بقول حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ رضا کوئی کسبی شے نہیں ہے جو مجاہدے اور کسب کے ذریعے بندے کو حاصل ہو جائے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطیے اور بخشش کے طور پر حاصل ہوتی ہے کیونکہ دل کا سکون اور طمانیتِ قلب بندہ کسب اور کوشش سے حاصل نہیں کر سکتا بلکہ یہ خداوند تعالیٰ کے عطیات میں سے ہے۔ وہ توجہ فرماتا ہے تو یہ حاصل ہوتے ہیں۔ عبادات و مجاہدات اور قربِ الٰہی کی سچی لگن محض اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا رحم اور کرم طلب کرنے کی آرزو ہے اور یہی آرزو جب پختہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی توجہ کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے۔

’’تصوف کے مقامات میں سے پہلا مقام ’’توبہ‘‘ ہے یعنی خدا کی نافرمانی اور بغاوت سے آئندہ باز رہنے کا مصمم ارادہ اور سابق نافرمانیوں کی تلافی کا خلوصِ نیت سے عہد۔ دوسرا مقام انابت ہے یعنی اپنے مالکِ حقیقی خدا تعالیٰ کی طرف خشوع و خضوع کے ساتھ رجوع۔ تیسرا مقام زہد ہے یعنی ترک ماسوا اللہ یعنی ہر تعلق کو اللہ سے تعلق کے تابع کر دینا۔ چوتھا مقام ہے توکل۔ یعنی خدائے بزرگ و برتر کی ذات پر کامل بھروسہ... اسی سے آگے ’’رضا‘‘ کے حصول کا راستہ کھلتا ہے۔ صوفیائے کرام کے نزدیک رضا مقامات میں سے آخری اور انتہائی مقام ہے۔ یہ مقامات اسی ترتیب سے مجاہدہ کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ ہر مقام سے آگے بڑھنے کے لئے مسلسل مجاہدہ (یعنی کوشش اور جدوجہد) کی ضرورت ہوتی ہے۔ کشف المحجوب کے الفاظ میں ’’سچے صوفیاء کرام علماء حق سے بھی بڑھ کر خدا کے دین کے پہرے دار تھے اور باطن ہی میں نہیں ظاہر شریعت میں بھی نہایت درجہ شریعت الٰہی اور سنت رسول ﷺ کے پابند تھے‘‘۔ احادیث میں وارد ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ ’’اے میرے رب مجھے ایسا عمل بتا جس پر عمل کروں تو مجھے تیری رضا حاصل ہو جائے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے موسیٰ یہ بات تیری قوت برداشت سے باہر ہے‘‘۔ یہ سُن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام روتے ہوئے سجدے میں گر پڑے۔ چنانچہ وحی نازل ہوئی ’’اے فرزند عمران! میری رضا تو تمہارے اندر ہے۔ تم کو چاہئے کہ قضا پر راضی رہو‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کی قضا پر راضی رہے گا تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حق تعالیٰ اس سے راضی ہے۔

میں عرض کر رہا تھا کہ بابا جی ترنگ اور خاص کیفیت میں ہوتے تو بعض اوقات حجاب اٹھاتے چلے جاتے۔ شاید ان کے نزدیک یہ بھی تربیتی عمل کا حصہ تھا کہ عقیدت مندوں کے تصورات پاک اور صاف کئے جائیں۔ اک دم مجھ سے مخاطب ہوئے اور پوچھا بابا تم نے عمرے اور حج کیا ہے۔ کئی بار خانہ کعبہ کا طواف کیا ہے۔ کیا تمہیں علم ہے کہ اس خانہ کعبہ یا بیت اللہ کے اوپر آسمانوں میں بھی ایک کعبہ ہے جسے بیت المعمور کہتے ہیں۔ بیت المعمور بیت اللہ کے بالکل اوپر واقع ہے اور یہاں ستر ہزار فرشتے ہمہ وقت طواف کرتے اور حمد و ثنا و ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے بیت المعمور کی چھت پر وہ لوحِ محفوظ موجود ہے جس پر قرآنِ مجید کو سجایا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا تعالیٰ نے لی ہے اور اسے بیت المعمور کی چھت پر محفوظ کر دیا گیا ہے جہاں سے ہر وقت نور کی لہریں اٹھتی اور فضا میں پھیلتی رہتی ہیں۔ بابا مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آسمانی کعبۃ اللہ بیت المعمور سے ہمہ وقت خانہ کعبہ پر نور کی بارش ہوتی رہتی ہے اور اللہ پاک کی زمین پر جہاں کہیں بھی مسجد یعنی اللہ کا گھر تعمیر ہوتا ہے اس پر بیت المعمور سے نور کی کرنیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مساجد میں جب ذکر الٰہی ہوتا ہے تو اُس کی باز گشت آسمانوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ مساجد میں آنے والے نمازی اگر اپنی نیت اور اعمال درست نہیں کرتے اور اطاعتِ الٰہی کو اپنا شعار نہیں بناتے تو وہ نور کی اُن کرنوں سے محروم ہو جاتے ہیں جو مسجد میں آنے والوں کا مقدر ہوتی ہیں۔ بابا اپنے آپ کو اتنا پاک اور صاف کر لو کہ ان نورانی کرنوں کو زیادہ سے زیادہ جذب کر سکو اور تمہارا باطن منور ہو جائے۔ باطن منور ہو گا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے عطیات تم پر نازل ہوں گے۔

تازہ ترین