• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سزائے موت سے پاکستان میں جرائم میں کمی نظر نہیں آرہی،سفیر یورپی یونین

اسلام آباد(خصوصی نامہ نگار)سفیریورپی یونین ژاں فرانسوا کوتاں نے کہا ہے کہ "ہمارا نہیں خیال کہ سزائے موت پاکستان میں جرائم میں کمی لانے کا باعث بن رہی ہے، تاہم یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ سزا ناقابل تلافی ہے۔"جمعرات کو پاکستان میں سزائے موت کے استعمال پر جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے زیر اہتمام شائع ہونے والی پہلی کتاب"پاکستان میں سزائے موت، ایک تنقیدی جائزہ" کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ قانونی ماہرین مجھ سے زیادہ بہتر انداز میں تنقید ی جائزہ لے سکتے ہیں تاہم میرا خیال میں سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد سے پاکستان میں جرائم میں کمی نظر نہیں آرہی۔پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سیکرٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سزائے موت عسکریت پسندوں کو نہیں بلکہ صرف محروم اور پسماندہ طبقات کو دی جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے کہا کہ حکومت کو محروم اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ کتاب میں جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے متعدد موکلین سے متعلق دستیاب مواد پر انحصار کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری، عدالتی کارروائی اور پھانسی دینے کے دوران روا رکھے جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو منظر عام پر لایا گیا ہے۔ کتاب کا مقصد نظام انصاف میں موجود مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کے حل کے لیے پالیسی سازی کی سمت متعین کرنا بھی ہے۔ یہ کتاب سزائے موت سے متعلق اعدادوشمار، معلومات اور تجزیات تک رسائی آسان بنانے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔ اس سے قبل جسٹس پراجیکٹ پاکستان سزائے موت سے متعلق اعدادوشمار پر مبنی ایک آن لائن ڈیٹا بیس بھی بنا چکا ہے جہاں پھانسیوں اور سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق اعدادوشمار دستیاب ہیں۔ علاوہ ازیں جسٹس پراجیکٹ پاکستان وکلاء اور سائلین کے مابین رسائی کا عمل آسان بنانے کے لیے ایک ایپ پر بھی کام کر رہا ہے۔ یہ ایپ رواں برس ستمبر میں عام استعمال کے لیے پیش کی جائے گی۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال کا کہنا ہے۔ "پاکستان میں سزائے موت کا استعمال مسائل کے حل کی بجائے مسائل پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس کتاب کے مندرجات وکلاء، صحافیوں، محققین، پالیسی سازوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کو سزائے موت کے استعمال اور اس سے وابستہ مسائل کو سمجھنے میں مدد دیں گے۔"
تازہ ترین