• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی پراڈکٹ کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے سائنس و تحقیق کا شعبہ ناگزیر ہے۔ سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی سے پیداواری عمل میں  بہتری آتی ہے۔ پاکستان میں سائنس کلچر کو فروغ دیے بغیر ہم اعلیٰ ٹیکنالوجی والے ممالک میں شامل نہیں ہوسکتے، اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنے موجد و خلاق نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اعلیٰ ٹیکنالوجی کا خصوصی اطلاق برقی مصنوعات، کمپیوٹرز، چپس اور ہارڈ ویئر کی تیاری میں ہوتا ہے۔

پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی

ہمارا پیداواری شعبہ (مینوفیکچرنگ انڈسٹری) ترقی یافتہ ممالک سے درآمد شدہ ٹیکنالوجی کا محتاج ہے۔ تاہم، ہمارے ہنرمند افراد جو نفاست دکھاتے ہیں، اس کی دنیا معترف ہے۔ سیالکوٹ کے ہنرمندوں کی فٹبال کا جواب نہیں۔ ہینڈی کرافٹ کا بھی خوب چرچہ ہے۔ گارمنٹس انڈسٹری، ٹیکسٹائل انڈسٹری اورتعمیراتی سامان کا معیار تسلیم کیا جاتا ہے۔

مزید برآں، اعلیٰ ٹیکنالوجی سے نفیس اور معیاری مصنوعات سازی کے لیے انسانی سرمائے کوسائنس و ٹیکنالوجی کی تربیت دینی ہوگی۔ اسکول،کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر منعقدہ سائنس فیئرز میں انوکھی ایجادات کوسامنے لانے کے لیے انجینئرنگ کو فروغ دینا ہوگا۔ آئی ٹی میں پاکستان کے اسٹارٹ اَپس موجد ممالک سے اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ پاکستانی طالبعلم گزشتہ 18برس سے اپنی ایجادات سے ایک دنیا کو حیران کیے ہوئے ہیں،لیکن حکومتی حوصلہ افزائی، نجی شعبے کے عدم تعاون اور سرمائے کی کمی کی بنا پر ان کی پراڈکشن سامنے نہیں آرہی۔ آئی ٹی ا ور ٹیلی کمیونیکشن میں ہماری مہارت کو سلیکون ویلی نے تسلیم کیا ہے۔ اس طرح زرعی ملک ہوتے ہوئے ہم پہلی بار خدمات وصنعت کے شعبوں میں اپنی محنت کا ثمر پانے لگے ہیں، جس کی ایک وجہ کاروبار میں مختلف سہولتوں کا حاصل ہونا ہے۔ کینیڈا اور پاکستانی آئی ٹی ماہرین کے مابین آئی ٹی فورم تشکیل پاچکا ہے۔ ایوان صنعت وتجارت فیصل آباد کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں 64 سرفہرست بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ آن لائن بزنس کوفروغ دیاجائے گا۔

پاکستان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری

پاکستان بہترین قدرتی وانسانی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ تاہم بہت سی وجوہات کی وجہ سے برآمد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آرہا اور یہ خطیر زرمبادلہ سے محرومی کا موجب بن رہا ہے۔ پاکستان میں صنعت و زراعت کے شعبوں کو ملک بھر میں قائم اداروں سے منظم کرکے تمام شعبہ جات کے مابین تعاون کو فروغ دینا ہوگا تاکہ ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہوسکیں۔

قومی معیشت میں پیداواری شعبے کا حصہ تقریباً 20فیصد ہے، جس میں شوگر انڈسٹری کا بڑا حصہ ہے۔ سیمنٹ انڈسٹری تکنیکی طور پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ ادویہ سازی کی صنعت جو سینکڑوں پیداواری یونٹس پرمبنی ہے، اس میں جدید ادویہ ساز کمپنیوں کے معیار کوعالمی ادارہ صحت نے بھی تسلیم کیا ہے۔ وزیرآباد آلات جراحی اور گوجرانولہ معیاری پنکھوں کی تیاری میں بے مثال ہے۔ لائٹ انجینئرنگ انڈسٹری کا برآمدی ہدف90فیصد ہے۔ آٹو پارٹس انڈسٹری کے بھی کئی پیداواری یونٹس ہیں۔ عالمی سطح پرابھرتی معاشی مارکیٹ میں اس وقت پاکستان سرجیکل گڈز، اسپورٹس، ٹیکسٹائل، آٹوموٹیو، فارما سیوٹیکل، کٹلری، سیمنٹ، ہینڈی کرافٹ، ماربل، ہیرے جواہر ، پھل، خشک میوہ جات، سبزی ، سی فوڈ، لائیو اسٹاک، فنانشل سروسز، آئی ٹی وٹیلی کام، چمڑا، سیاحت، پاور اینڈ انرجی اور میڈیا اینڈ انٹرٹینمنٹ جیسے شعبوں میںہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی معیاری مصنوعات وخدمات کالوہا دنیا بھر میں منوارہا ہے۔ صنعت و خدمات کے شعبے متاثرکن کارکردگی دکھاکر دنیا بھر میں’’ ابھرتے روشن پاکستان ‘‘ کا امیج اجاگر کررہے ہیں۔

فوربز30انڈر30میں شامل پاکستانی

بین الاقوامی جریدے ’فوربز‘ کی ’30انڈر 30‘ کی سالانہ فہرست برائے2019ء میں چھ پاکستانیوں کے انفرادی کارنامے اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستان سیلف میڈ لوگوں کی سرزمین ہے۔ اس فہرست میں کچرے کو توانائی میں تبدیل کرنے والی تنظیم پاکستان رینیو ایبل سوسائٹی کی سربراہ زینب بی بی، غربت اور بے روزگاری ختم کرنے اور مختلف افراد کو کاروبارکے لیے قرضے دینے والےآن لائن پلیٹ فارم کے بانی زین اشرف ، چترال ویمن اسپورٹس کلب کی واحد خاتون فٹبالر کرشمہ علی ،جن کی سربراہی میں خواتین کی فٹبال ٹیم نے دبئی میں پاکستان کی نمائندگی کی، ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کی سیکیورٹی سے متعلق متعدد عالمی اداروں کے ساتھ کام کرنے والی لیلیٰ قصوری، بڑی بڑی کمپنیوں کو آن لائن کاروبار کی سہولت فراہم کرنے والےای کامرس پلیٹ فارم کے شریک بانی احمد رؤف عیسیٰ اور خواتین کے لیے آن لائن سفری سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) جیا فاروقی، حسن عثمان، حنا لاکھانی اور منیب میاں شامل ہیں۔ فوربز کی فہرست میں آرٹ اینڈ اسٹائل، تعلیم، گیمز، کھانے، انٹرپرائز ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ سمیت 20مختلف شعبوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے 600افراد کی خدمات کا اعتراف کیاگیا۔

دانشور سرمائے کا تحفظ

آج ترقی پذیر اور ترقی یافتہ مسابقتی دنیا میں دانشور سرمائے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کی جارہی ہے، تاکہ ایسی مصنوعات و خدمات تشکیل دی جائیں جن کی مارکیٹ میں طلب و رسد ہے، اس طرح اضافی اشیا پر خسارے کو کنٹرول کیا جاسکے گا۔ ہنرمند افراد کو ٹیکنالوجی کے مدبرانہ استعمال کے لیے تعلیم و تربیت دی جائے تاکہ ایسےتعلیم یافتہ ہنر مند سامنے آئیں جو اپنے شعبے میں سائنسی معلومات اور تجربے رکھتے ہوں۔ اس کے علاوہ تعلیم، حفظانِ صحت، ٹیکنالوجی، تعمیرات، ریٹیل، قابلِ عمل مینوفیکچرنگ اور دستاویزی معیشت کو فروغ دےکر سرمائے کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔

تازہ ترین