• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مراکو میں میرے قیام کے دوران چیئرمین جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ مراکو تشریف لائے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب پاکستان سے کسی اعلیٰ فوجی قیادت نے مراکو کا دورہ کیا ہو۔ وفد کا استقبال مراکش کے وزیر برائے قومی دفاع عبداللطیف لاوڈیا، مراکش میں پاکستان کے سفیر حامد اصغر خان اور مراکش کے اعلیٰ فوجی حکام نے کیا۔ جنرل زبیر محمود حیات نے اپنے 4روزہ دورے کے دوران اعلیٰ فوجی حکام سے ملاقاتیں کیں، رائل اسکول آف ہائر ملٹری ایجوکیشن کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شعبوں میں مفاہمت اور باہمی دفاعی تعاون بڑھانے پر بھی غور کیا گیا۔ مراکش میں حال ہی میں تعینات کئے جانے والے پاکستان کے سفیر حامد اصغر خان نے جنرل زبیر محمود حیات اور ان کے وفد کے اعزاز میں عشایئے کا اہتمام کیا جس میں، میں بھی مدعو تھا۔ تقریب میں معززین شہر، مختلف ممالک کے دفاعی اتاشی اور غیر ملکی سفارتکاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ واضح رہے کہ حامد اصغر خان مراکش میں تعیناتی سے قبل وزارت خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل افریقہ کے عہدے پر تعینات تھے اور افریقی ممالک جن میں مراکو بھی شامل ہے، کے سفیروں میں بہت زیادہ مقبول تھے۔ ڈی جی افریقہ کے عہدے پر رہتے ہوئے ان کی یہ کوشش رہی کہ پاکستان اور افریقی ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہو اور اس سلسلے میں انہوں نے کافی تگ و دو بھی کی۔

مراکش میں قیام کے دوران میں نے سفیر پاکستان حامد اصغر خان کو اہلیہ سمیت رباط مرینہ پر بوٹ ریسٹورنٹ پر کھانے پر مدعو کیا۔ اس دوران ہماری گفتگو کا محور پاکستان اور مراکش کے مابین باہمی تجارت میں اضافہ تھا۔ میں نے سفیر پاکستان کو مراکو میں بزنس مین ڈیلی گیشن کے دورے اور سنگل کنٹری نمائش کا انعقاد جیسی تجاویز پیش کیں جس سے انہوں نے اتفاق کیا۔ میں نے حامد اصغر خان کو یہ تجویز بھی پیش کی کہ سفارتخانے میں ایک ڈسپلے ایریا قائم کیا جائے جس میں پاکستان کی برآمدی اشیاء مثلاً سرجیکل گڈز، اسپورٹس گڈز، لیدر اور ٹیکسٹائل مصنوعات اور چاول جیسی اشیاء کو ڈسپلے کیا جائے اور وہاں کے امپورٹرز کو سفارتخانے مدعو کر کے ان اشیاء کے بارے میں آگاہی اور مینوفیکچررز کے بارے میں معلومات فراہم کی جائے جس سے پاکستان اور مراکش کے مابین تجارت میں اضافہ متوقع ہے۔ میری اس تجویز کو سراہتے ہوئے حامد اصغر خان نے مجھے پاک مراکو جوائنٹ بزنس کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے پاک مراکش باہمی تجارت بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنے کو کہا۔ حامد اصغر خان کی ماضی کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے پورا یقین ہے کہ ان کے دور سفارت میں پاکستان اور مراکش کے مابین تجارت میں اضافہ ہوگا۔

مراکش کو افریقہ کا گیٹ وے تصور کیا جاتا ہے۔ افریقہ کی سب سے تیز ترین ٹرین البراق اور تنجیر میڈ افریقہ کی سب سے بڑی بندرگاہ کے قیام سے مراکش نے افریقہ میں مزید اہمیت اختیار کر لی ہے اور افریقہ کے دوسرے چھوٹے ممالک تجارت کیلئے مراکش کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ 2006میں جب شوکت عزیز وزیراعظم پاکستان تھے تو ان کے ہمراہ مراکش جانے والے وفد میں، میں بھی شامل تھا۔ مراکش سے واپسی پر جہاز میں ون ٹو ون ملاقات کے دوران میں نے انہیں مراکش کی تجارتی اہمیت کے پیش نظر وہاں کمرشل قونصلر تعینات کرنے کی تجویز پیش کی جس سے انہوں نے مکمل اتفاق کیا اور کمرشل قونصلر کی تعیناتی کے فوری احکامات جاری کئے مگر بدقسمتی سے بعد میں آنے والی حکومتوں میں مختلف ممالک میں اقربا پروری کی بنیاد پر اپنے من پسند افراد کو متعین کیا گیا۔ مراکش میں بھی ایسے من پسند کمرشل قونصلرز جو مقامی زبان سے بھی ناواقف تھے، کو تعینات کیا گیا جس کے باعث گزشتہ سالوں میں پاک مراکو تجارت میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانے میں بیرون ملک متعین کمرشل قونصلرز بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہم اس شعبے میں بھی ناکام رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ایکسپورٹس 25ارب ڈالر سے گرکر 23ارب ڈالر پر آگئی ہیں جبکہ کمرشل قونصلر سرکاری اخراجات پر عیش و عشرت کی شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت پاکستان بیرون ملک متعین کمرشل قونصلرز کو رہائش کے علاوہ آفس، سیکرٹری، بچوں کی اسکول فیس، میڈیکل اور کار ڈرائیور سمیت تمام مراعات فراہم کرتی ہے، اس طرح ایک کمرشل قونصلر پر سالانہ لاکھوں ڈالر کے اخراجات آتے ہیں مگر افسوس کہ گزشتہ کئی سالوں میں پاکستان کی ایکسپورٹ میں اضافے کے بجائے کمی واقع ہورہی ہے۔ کمرشل قونصلر کی تعیناتی وزارت تجارت کرتی ہے، اس طرح وہ وزارت تجارت کے ماتحت آتا ہے، شاید اسی لئے وہ پاکستانی سفارتخانے کو رپورٹ کرنے کے بجائے آزادانہ کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کالم کے توسط سے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود سے درخواست ہے کہ بیرون ملک اقربا پروری پر تعینات کئے گئے ایسے کمرشل قونصلرز جن کی پرفارمنس قابل قدر نہیں اور ان کی وجہ سے ایکسپورٹ تنزلی کا شکار ہے، کو فوراً عہدے سے ہٹایا جائے اور اُن کی جگہ ایسے کمرشل قونصلرز متعین کئے جائیں جو اُن ممالک کی زبان سے بھی واقف ہوں جبکہ کمرشل قونصلر کا آفس پاکستانی سفارتخانے میں رکھا جائے تاکہ پاکستان پر لاکھوں ڈالر زرمبادلہ کا بوجھ نہ پڑ سکے۔ اس کے علاوہ کمرشل قونصلرز کو مختلف اہداف دیئے جائیں اور وہ ہر ماہ سفیر پاکستان کو اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کریں لیکن اگر کوئی کمرشل قونصلر اپنے اہداف پورا کرنے میں ناکام رہے تو اسے فوری واپس بلالیا جائے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کچھ ممالک میں مقیم پاکستانی نژاد بزنس مین بھی کمرشل قونصلر کے فرائض اعزازی طور پر انجام دینے اور اسٹاف سمیت اپنا آفس بھی اس مقصد کیلئے استعمال کرنے کو تیار ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس تجویز پر بھی غور کرے۔ پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ہمیں جدید طریقے اپنانا ہوں گے بصورت دیگر پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب کبھی پورا نہ ہو سکے گا۔

تازہ ترین