• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھٹو پاکستان کے پہلے اور اب تک آخری سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے یہ فیصلہ ان کے کیرئیر پر ایک داغ ضرور ہے مگر اس سویلین مارشل لا نے اس ملک کو کیا کیا نہیں دیا؟ ہم اس بات کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ اس سویلین مارشل لا کے تحت لینڈ فارمز ہوئے، بڑی بڑی صنعتیں قومی ملکیت میں لی گئیں، بینکوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا، لیبر ریفارمز ہوئے وغیرہ وغیرہ۔اس کے علاوہ سیٹو اور نیٹو کو توڑ کر سامراج کی طرف سے پاکستان کو پہنائی گئی زنجیریں توڑی گئیں۔
اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرکے اسلامی دنیا کے لئے ایک سامراج دشمن رخ متعین کیا گیا۔ امریکہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف اور عالمی بینک ناراض ہوگئے مگر بینکوں اور صنعتوں کے قومیائے جانے اور بیرون ملک پاکستانیوں کو روزگار ملنے کی وجہ سے بیرون ملک سے آنے والے فارن ایکسچینج اور ساتھ ہی اسلامی ملکوں خاص طور پر سعودی عرب اور لیبیا کی طرف سے سرمائے کی فراہمی کی وجہ سے پاکستان کو عالمی بینک وغیرہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ اب تو تاریخ کا پہیہ نہ فقط پاکستان میں بلکہ ساری اسلامی دنیا میں انتہائی تیزی سے آگے کی طرف چلنے لگا۔ اس کی ایک مثال ذوالفقار علی بھٹو کے مشورے پر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی طرف سے اپنی پیداوار اپنے مقرر کئے ہوئے نرخوں پر ترقی یافتہ ملکوں کو فروخت کرنے والا فیصلہ ہے۔ اندرون ملک بسوں میں سفر کرنے والے غریب لوگوں اور کئی ضروریات زندگی کی چیزوں پر سبسڈی دے کر یہ اشیاء کم نرخوں پر عام لوگوں کو فراہم کی جانے لگی۔ بھٹو سے پہلے کالج اور پینے کے پانی کی فراہمی کی اسکیمیں فقط بڑے شہروں کے لئے تھی مگر اب کالج تحصیل کی سطح تک قائم کئے جانے لگے اور ملک بھر میں نہ فقط رورل واٹر سپلائی اسکیمیں شروع کی گئیں بلکہ ملک بھر میں راستوں کا جال بچھا کر چھوٹے شہروں اور دیہات کو بڑے شہروں سے ملانے کی کوشش کی گئی مگر بھٹو کے یہ سارے کارنامے امریکی سامراج اقتدار کے بھوکے جنرلوں، سول بیورو کریسی، علمائے سو، نوابوں، چوہدریوں، ملکوں، پیروں، میروں اور وڈیروں اور وہ صنعت کار جن کے کارخانے قومی ملکیت میں لئے گئے کی نظروں میں ناقابل معافی جرائم تھے شاید بھٹو کا سب سے بڑا جرم تاریخ کے پہیئے کو آگے چلانا تھا،بھٹو کو ان جرائم کی سزا ملنی تھی سو بھٹو کو یہ سزا ملی اور ساری دنیا نے یہ سزا ملتی دیکھی۔ جنرل ضیاء نے سب سے پہلے تاریخ کے پہیئے کو جام کیا، جمہوریت کو دفن کیا، عوام کو ایک بار پھر امراء اور شرفاء کا غلام بنایا گیا۔ یہ نظارہ تاریخ نے جنرل ضیاء کی طرف سے منعقد کرائے گئے لوکل باڈیز کے انتخابات کے دوران دیکھا۔ جنرل ضیاء کے دور میں منصوبہ بندی کے طور پر سندھ کے بڑے شہروں میں بندوق کا راج شروع کردیا گیا اور سندھ کے دیہاتی علاقوں میں ڈاکو راج شروع کرایا گیا۔
سندھ کے عوام کی طرف سے ضیاء مارشل لاء کے خلاف شروع کی گئی تاریخی ایم آر ڈی تحریک کی سزا تھی اور اس بات کی پیش بندی تھی کہ آئندہ سندھ میں ایسی کوئی تحریک نہ چل سکے۔ واضح رہے کہ ضیاء کے مارشل لاء کی طرف سے تاریخ کے پہیئے کو جام کئے جانے کے باوجود سندھ کے عوام تاریخ کے پہیئے کو آگے لے جانے پر بضد تھے۔ یہ حاکموں اور محکوموں کے درمیان واضح ٹکر تھی اور سندھ کے محکوموں کو کوئی سزا تو ملنی ہی تھی۔ بعد میں باقی کمی دوسرے جنرل حکمران پرویز مشرف نے پوری کردی۔ انہوں نے ایک ایسا لوکل باڈیز کا نظام نافذ کیا جس میں صوبے تحلیل ہوگئے اور لوکل باڈیز ڈائریکٹ اسلام آباد سے منسلک کردی گئیں۔ ایسا تو انگریزوں نے بھی نہیں کیا تھا۔ اس دوران دوبار بینظیر بھٹو کی اور دو بار میاں نواز شریف کی منتخب حکومتیں آئیں مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ دونوں بار دونوں حکومتوں کے ہاتھ پیچھے سے بندھے ہوئے ہوتے تھے۔ اصل حکمران جب تک چاہتے ان حکومتوں کو چلاتے اور جب چاہتے ان کو چلتا کرتے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام پانچ سالوں کے دوران سول حکمران کس حد تک خود مختار رہے ہیں، اس کا جواب شاید آئندہ کا مورخ دے گا۔ اب انتخابات آنے والے ہیں اس وقت جو منظر ہے وہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے ظاہری طور پر جمہوریت ہے مگر جائزہ لینے پر محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کا پہیہ ایک بار پھر جام ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے لوکل باڈیز کے قوانین کے تحت نہ فقط دیہات میں بلکہ شہروں میں بھی جاگیریں بنائی گئیں اور ان جاگیروں کے انچارج اب سیاسی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ اس وقت جو صورتحال ہے اس کے مطابق یہ بات اظہر من الشمس محسوس ہو رہی ہے کہ شاید آئندہ انتخابات میں عوام کوئی فیکٹر ہی نہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ بھٹو ڈاکٹرائن کو دفن کردیا گیا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نظر نہیں آتا کہ بھٹو ڈاکٹرائن اور بینظیر بھٹو Phenomenon کو دفن کرنے والی ان کی اپنی ہی پارٹی ہے۔ شاید یہ سب کچھ ہمارے ملک اور بیرون ملک کے ریفریوں کی ہدایات کے تحت ہی رہا ہے اور شاید ملک کے موجودہ سب سیاسی کھلاڑیوں میں اس سلسلے میں اتفاق رائے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف پارٹیاں ایک دوسرے کے نوابوں، پیروں، میروں، فیوڈلسٹس اور وڈیروں پر ہاتھ صاف کررہے ہیں۔ اس کھیل میں فی الحال خاص طور پر دونوں بڑی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور نواز مسلم لیگ پیش پیش ہیں۔ مگر کچھ دیگر پارٹیاں جن میں خاص طور پر تحریک انصاف اور فنکشنل مسلم لیگ بھی شامل ہیں، پیچھے نہیں ہے۔ مگر لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کو جتنا کھیل کھیلنا تھا کھیل چکی۔
جہاں تک پی پی اور پی ایم ایل (ن) کا تعلق ہے تو کبھی دیکھا جاتا ہے کہ پی ایم ایل (ن) پنجاب ہی میں سے گجراتی نواب اور چوہدری پھانس کر اپنی پارٹی میں لے آتی ہے تو کبھی پی پی والے بہاولپور سے سردار ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے اور جہلم کے برخورداروں کو پی ایم ایل (ن) سے الگ کروا کر اپنی پارٹی میں لا رہے ہیں۔ یہی ریس سندھ میں بھی جاری ہے۔ پی پی کبھی مہروں کو پارٹی میں لاتی ہے تو کبھی ٹھٹھہ کے شیرازیوں کو پارٹی میں لاتی ہے تو کبھی لاڑکانہ کے انڑوں کو پارٹی میں لا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ان علاقوں میں پی پی کے وفادار جیالے ناراض ہو کر پارٹی سے الگ ہو کر بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ مگر پارٹی قیادت کو ان ورکروں کے احساسات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اسی طرح نواز شریف پی ایم ایل کیو میں شامل ہونے والے لیاقت جتوئی کو پارٹی میں شامل کر رہے ہیں۔
یہ بات صاف نظر آ رہی ہے کہ اب دونوں پارٹیوں کا سارا زور اس بات پر ہے کہ عوام کی بجائے ان با اثر لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے۔ سندھ کے ایک دانشور نے اس صورتحال پردلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں عوام کا نام و نشان تک نہیں ہوگا اور سارا مقابلہ ان ہاتھیوں میں ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں ہر پارٹی عوام کے بجائے ہاتھیوں کی فوج لے کر میدان میں اترے گی مگر کیا پتہ اگر اس دوران کوئی حقیقی عوامی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کو ذوالفقار علی بھٹو یا بینظیر بھٹو جیسا قائد مل گیا تو ہوسکتا ہے کہ یہ ہاتھی پورس کے ہاتھی ثابت ہوں۔ بہرحال یہ تب ہو گا جب ملکی سیاست میں کوئی معجزہ ہو جبکہ یہ دور سیاسی معجزوں کا تو نہیں ہے لہٰذا نظر یہ آ رہا ہے کہ اب پاکستان میں عوامی دور فی الحال ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اب ایک بار پھر یہ ہاتھی اقتدار میں ہوں گے اور ایک بار پھر تاریخ کا پہیہ الٹا چلایا جائے گا مگر کیا ایک بار پھر یہاں بنگلہ دیش بنے گا۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس ملک کے اصل طاقتور حکمرانوں کو اس ملک پر رحم کیوں نہیں آتا اور ملک کی باگیں ان کے اصل مالکوں عوام کے حوالے کیوں نہیں کی جاتیں؟
تازہ ترین