• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جامعہ زکریا :پروفیسر ڈاکٹر عمران شریف کیخلاف سرقہ کی تحقیقات شروع

ملتان (سٹاف رپورٹر) جامعہ زکریا کے پروفیسر ڈاکٹر عمران شریف کے خلاف( پلیجرازم)سرقہ کے الزام کی تحقیقات شروع ہوگئیں، گزشتہ روز یونیورسٹی کمیٹی روم میں ڈین پروفیسر ڈاکٹر شفقت اللہ کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں ممبران کمیٹی پروفیسر ڈاکٹر علیم خان،پروفیسر ڈاکٹر اکبر انجم، ڈاکٹر حفیظ اللہ اور دیگر نے شرکت کی،شکایت کنندہ ڈاکٹر سعید اختر نے کمیٹی کے سامنے دلائل پیش کئے اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر عمران شریف نے نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں ماسٹر لیول کے مقالہ کو بغیر سکالر نصیر احمد اور سپروائزر منصور زیدی کا نام شاملِ کئے اپنے ہی جرنل میں شائع کیا،14 مارچ 2019ء کو جب یہ کیس سامنے آیا تو ڈائریکٹر آئی ٹی اور پریس کے اندر موجود شائع ہونے والے جرنل کی کاپی میں اصل سکالر نصیر احمد کا نام شامل کردیا جبکہ باقی تمام ڈیٹا بیس میں سکالر نصیر احمد کی جگہ رشید احمد کا نام شامل تھا،یہی پرچہ ڈاکٹر عمران شریف نے اپنی ڈین شپ کی درخواست اور وی سی شپ کی درخواست کے ساتھ لف کیااس طرح ڈاکٹر عمران شریف نے ایک ہی مقالے کو2 مختلف جرنلز میں شائع کیا پہلے پرچے میں انکا نام ہی نہیں جبکہ دوسرے پرچہ میں نام شامل کرلیا اور دونوں پرچوں میں سو فیصد مماثلت پائی جاتی ہے، بعدازاں اجلاس میں ڈاکٹر عمران شریف نے الزام کو بے بنیاد قرار دیا اورکہاکہ چونکہ میں نے ڈاکٹر سعید اختر کو اے ایس اے کےالیکشن میں شکست دی تھی لہذا وہ انتقامی کارروائی کر رہے ہیں ،انہوں نے موقف اختیار کیا کہ مذکورہ پرچہ میں سکالر نصیر احمد یا اسکے سپروائزر کا نام شاملِ نہیں تھا مگر چونکہ پرچہ آن لائن تھا اور پوری دنیا کی لائبریریوں میں نصیر احمد کے نام کے بغیر تھا،اسوقت کے ایڈیٹر ڈاکٹر مقرب اکبر نے اس غلطی کو درست نہیں کیا مگر جب مجھے دوبارہ جرنل کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا تو میں نے نصیر احمد کا نام پرچے میں شامل کرکے غلطی کو درست کروا دیا اس طرح دوسرے پرچہ میں کانفرنس میں پریزنٹ کئے گئے مقالہ میں ڈاکٹر حمایت اللہ نے میرا اینالایسز شامل ہونے کی وجہ سے میرا نام شامل کیا، کمیٹی نے دونوں فریقین کا موقف سنا اور سوالات کئے، بتایا گیا ہے کہ انکوائری کمیٹی کا فیصلہ وائس چانسلرجامعہ ذکریا کی منظوری سے یونیورسٹی کی اعلی ٰ اختیاراتی کمیٹی سینڈیکیٹ میں رکھا جائے گا، یہ امر قابل ذکر ہے کہہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی پلیجرازم پالیسی کے مطابق اس کیس کا 90 روز کے اندر فیصلہ کرنا لازمی ہوتا ہے جبکہ اس کیس میں 90 روز سے زیادہ کا وقت گذر چکا ہے، بروقت فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے ہائر ایجوکیشن کمیشن یہ کیس اپنی سطح پر بھی حل کر سکتا ہے۔
تازہ ترین