• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی الیکشن دور ہے۔ غیر جانبدار وزیراعظم اور اس کی حکومت ایک عالم سراب جیسا ہے۔ جو نام میڈیا میں آ رہے ہیں ان پر اعتبار کون کرے گا؟ وہ سب کے سب اپنی سوچ، اپنے سیاسی جھکاؤ کی وجہ سے غیر جانبداری سے بہت دور ہیں۔ بہت زیادہ عوام ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پورے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بھی میڈیا نے لوگوں میں بہت زیادہ شعوری بیداری پیدا کر دی ہے۔ جن لوگوں کے نام لئے جا رہے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو ایک طرف یا دوسری طرف جھکاؤ ظاہر کرتے رہے ہیں۔ اس رویّہ نے ان کی غیر جانبداری کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں رہا کہ دو بڑی پارٹیاں یہ فیصلہ کر سکیں کہ غیر جانبدار وزیراعظم کون ہو گا؟ نہ صرف یہ کہ اس مسئلے پر اتفاق رائے قومی اسمبلی میں موجود سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہو بلکہ باہر کی سیاسی پارٹیوں کا اتفاق رائے بھی ضروری ہو گا۔
اس طرح سے بالکل ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ دوسری سیاسی پارٹیاں بھی غیر جانبدار وزیراعظم کے لئے نام دے رہی ہیں۔ آئندہ دنوں میں یہ انتہائی پیچیدہ صورت سامنے آ جائے گی۔ اگر سیاسی پارٹیوں کے درمیان اس ایشو پر اتفاق رائے نہیں ہوا تو آئین کی رو سے یہ فیصلہ کہ غیر جانبدار وزیراعظم کون ہو، الیکشن کمشنر کو کرنا ہو گا۔
نگراں سیٹ اپ کا ایشو بہت اہم ہے۔ سیاست دان اپنے مخصوص مفادات کے تحت اس کا فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کریں اور پاکستان کے بہترین مفاد کو سامنے رکھیں۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ موجودہ الیکشن کمشنر کے ہوتے ہوئے ان کی دال گلنا مشکل ہے وہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ وہ خوش اسلوبی سے کام نہ کر سکے، لیکن ایسے عناصر کامیاب نہیں ہوں گے۔
اب تک جو نام سامنے آ رہے ہیں، ان میں جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد، محمد میاں سومرو، ڈاکٹر عشرت حسین، جسٹس (ر) شاکر اللہ جان کے نام معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے جب پوری صورت حال واضح ہوگی تو اتفاق رائے ہو سکتا ہے۔ ابھی کئی مذہبی جماعتوں کی طرف سے نام آ سکتے ہیں۔ یہ تو بات پکّی ہے کہ عوام کسی سیاست دان کا نام عبوری وزیراعظم کے لئے قبول نہیں کریں گے۔
اگر یہ مسئلہ حل ہو بھی جائے تو صوبوں میں نگراں سیٹ اپ کا معاملہ بھی اٹھ کھڑا ہو گا۔ اس ایشو کو نہایت خوش اسلوبی سے نمٹانے کی ضرورت ہے۔ ذاتی اناء اور مخصوص سیاسی مفادات کی خاطر قوم کو امتحان میں نہ ڈالا جائے۔ یہ بات بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ الیکشن کا انعقاد شفاف ہو۔ اس کے لئے الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو آئینی دائرے میں رہتے ہوئے اہم اقدامات کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اس سلسلے میں میرا کالم جو 3/دسمبر 2012ء کو شائع ہوا تھا، اس میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ”جب بھی الیکشن ہوتا ہے، یہ کہا جانے لگتا ہے کہ دھاندلی ہو گی اور جب انتخابات ہوجاتے ہیں تو شور اٹھتا ہے، دھاندلی ہوئی ہے۔“
الیکشن کمشنر اگر انتخاب کے عمل کو شفافیت دینا چاہتے ہیں تو نگراں حکومت میں سیاسی تقرریاں نہ ہوں۔ میڈیا کو ہر طرح کے کوریج کی آزادی دی جائے۔ سرکاری مشینری کے استعمال پر نظر رکھی جائے۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا تمام ووٹوں کا اندراج فہرستوں میں ہو گیا ہے؟ ورنہ کہا جائے گا کہ لاکھوں ووٹر حق رائے دہی سے محروم ہوگئے ہیں۔ اسی طرح الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے۔
ایک عجیب و غریب مطالبہ یہ ہے کہ الیکشن کمشنر فوج سے انتخاب کی نگرانی کرائیں اور فوج انتخابات کرائے۔ فوج کا الیکشن سے کیا تعلق ہے؟ یہ پولیس اور رینجرز کس مرض کی دوا ہیں؟ اوّل تو فوج کو سارے پاکستان میں پھیلایا نہیں جا سکتا کہ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ سچّی بات تو یہ ہے کہ فوج جنگ جیسی صورت حال سے دوچار ہے۔ اس کو الیکشن کے معاملات میں نہ گھسیٹا جائے اور اگر سارے کام فوج کو کرنے ہیں تو ملک فوج کے حوالے کیوں نہیں کر دیتے؟
الیکشن کمشنر ایسا عملہ تعینات کرے جو دیانتدار اور ایماندار ہو۔ اس عمل میں سیاسی مداخلت کو ہر قیمت پر روکا جائے اور الیکشن آئین کے تحت اور اس کے مطابق کرایا جائے۔ آئین کی دفعات 62/اور 63/پر سو فی صد عمل کرانے سے الیکشن شفاف اور منصفانہ ہو گا۔ اس کی ابتداء تو ہو جائے گی، اس بات کو میں آج نہیں کہہ رہا۔ آپ کو یاد ہو گا 1990ء میں جب الیکشن ہوئے تب بھی دھاندلی کے سنگین الزامات لگائے گئے۔ غرض ہر انتخاب کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے۔
نگراں حکومت اگر غیر جانبدار ہو گی اور ہر سطح پر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے گی تب ہی صحیح اور شفاف الیکشن ہوں گے۔
تازہ ترین