• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوہرے قتل پر کراچی میں’پھر دہشتگردی‘ کا واویلا کیوں؟

مقامی اینکر مرید عباس اور ان کے دوست خضر حیات کے قتل کا معمہ کراچی پولیس نے فوری طور پر حل نہیں کیا ہوتا تو دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی عروج پر ہوتی اور اس کی آڑ میں مافیا نما میڈیا پرسنز، اینکرز یا صحافی بیرون ممالک اپنی سیاسی پناہ کے حصول کی دکانیں چمکا چکے ہوتے اور پاکستان دشمن عناصر دنیا بھر میں آزادی صحافت کے حوالے سے نازیبا تقاریر ہی نہیں کررہے ہوتے بلکہ پاکستانی قیادت سے دست و گریبان بھی ہوچکے ہوتے۔

کراچی ڈیفنس میں ایک اینکر مرید عباس اور ان کے دوست خضر حیات کے قتل کی واردات کے وقت میں جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں پاکستانی دوستوں کی ایک دعوت میں تھا جہاں کراچی میں امن وا مان کی تسلی بخش صورتحال اور پاکستان میں دہشت گردی کے ماضی کے حوالے سے گفتگو ہورہی تھی۔

جاپان میں مقیم دوست اپنی سرزمین پاکستان کے روشن مستقبل کے حوالے سے میری گفتگو بڑے انہماک سے سن رہے تھے کہ میرے موبائل فون کے واٹس ایپ پر اچانک تیزی سے پیغامات آنے لگے، مجھے تشویش ہوئی، میں نے معذرت کرکے اپنی گفتگو کا سلسلہ روکا اور واٹس ایپ کھول کر دیکھا تو ’کراچی میں پھر دہشتگردی، ڈیفنس میں حملے میں اینکرپرسن اور ساتھی شدید زخمی‘ کا پیغام مجھ پر بجلی بن کر گرا۔

ایک نوزائیدہ اور پیرا شوٹر رپورٹر نے یہ اطلاع بیک وقت کئی میڈیا گروپس میں شیئر کی تھی۔ یہ پیغام مختلف اپ ڈیٹس کے ساتھ بہت سارے دیگر دوستوں کی جانب سے بھی مختلف گروپس میں شیئر کیا جا رہا تھا۔ میرے چہرے پر تشویش کے ساتھ ساتھ شرمندگی کے آثار نماں تھے۔

پریشانی کے دوران میں بھول گیا تھا کہ میں ٹوکیو میں پرامن کراچی کی گفتگو میں بریک لگا کر لوگوں کو منتظر کراکے بیٹھا تھا۔

موبائل فون پر مصروفیات اور پریشانی دیکھ کر منتظر ایک دوست نے پوچھ ہی لیا کہ ڈوگر بھائی سب خیریت تو ہے ناں۔جی ہاں سب ٹھیک ہے، میں نے گفتگو انتہائی مختصر کرنا شروع کردی۔اس دوران میں مسلسل ٹوں ٹوں، ٹوں ٹوں کررہے اپنے موبائل فون پر بھی توجہ دے رہا تھا۔

اوائل میں محض ایک سطر کا یہ پیغام مزید خطرناک الفاظوں کے اضافے کے ساتھ  واٹس ایپ کے دیگر کئی گروپوں میں شیئر کئے جانے کے بعد اب ٹوئٹر اور فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پر بھی بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔

اس دوران محفل میں موجود ایک دوست نے لگ بھگ چیخ مارتے ہوئے سکوت توڑا اور حاضرین میں کسی چیختے چنگھاڑتے نیوز اینکر کی طرح بریکنگ نیوز دی کہ’کراچی خاک پرامن ہے، میڈیا ٹیم پر حملہ ہوگیا ہے، دہشت گردوں نے ایک اینکر سمیت میڈیا کے کئی لوگ مار دیئے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔

میں جو اس اطلاع کو فوری طور پر اس محفل میں شیئر نہ کرنے کا ارادہ کرچکا تھا اور فراغت پاکر جلدی ہی وہاں سے رفو چکر ہونے والا تھا کہ ایک عام پاکستانی کی جانب سے کراچی کے بڑے واقعہ کی خبر پہلے دیئے جانے پر شرمندگی میں موبائل فون پر جھوٹی موٹی کالز ملانے لگا۔

چند منٹ بعد مرید عباس کی تصاویر کے ٹی وی اسکرین شاٹس بھی سوشل میڈیا پر تیزی سےشیئر ہونے لگَے۔ اس واقعہ کا افسوس اور تشویش تو تھی ہی مگر مجھے غصہ ان لوگوں پر آرہا تھا کہ جن کا پاکستان میں ان معاملات سےدور دور تک تعلق نہیں، وہ کراچی کے اس واقعہ کے ابتدائی منٹوں کی اطلاعات کے ساتھ دہشت گردی اور پاکستان میں بدامنی کا منجن لگا کر سوشل میڈیا پر شدید نکتہ چینی کررہے تھے۔

تھوڑی دیر بعد مرید عباس کی اہلیہ اور بچے کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر پاکستان میں پھر دہشتگردی اور کراچی میں بربریت کے سوالات کے ساتھ شیئر کی جانے لگیں۔

میرے استاد جیسے ایک سینئر صحافی نے اپنی وال پر تحریر یہاں سے شروع کی کہ’مرید عباس میں زارا کا سامنا کیسے کروں گا؟‘پرامن کراچی اور دہشت گردی پر قابو پانے والے پاکستان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر یہ اپنے ہی لوگوں کے یہ الفاظ بیرون ملک موجودگی کے دوران میرے دل میں کسی نشتر کی طرح چبھ رہے تھے۔

کراچی میں امن و امان کی صورتحال انتہائی کنٹرول میں ہونے اور شہر قائد میں امن فاختہ کی پروازوں کی میری کہانیاں سننے والے میرے دوست اس واقعہ کو دہشتگردی سے جوڑ کر میرے سامنے نکتہ چینی کر رہے تھے اور میں اپنے شہر اور وطن میں دہشت گردی کی اطلاعات پر پریشان تھا کہ کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر مرید عباس اور دوست کی موت کی تصدیق کی خبر آئی اور میں مزید غمزدہ اور میڈیا پر حملوں کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہوگیا۔

دوہرے قتل کی اس واردات کے حوالے سے تھوڑی دیر بعد اصل حقائق اور تازہ اپ ڈیٹس نے مجھے متحرک کردیا۔

تازہ اطلاعات اینکر مرید عباس اور دوست کے لین دین کے تنازعہ پر ان کے اپنے ہی دوست کے ہاتھوں قتل کئے جانے کی تھیں۔

موت برحق ہے جو کسی کو کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ اینکر سمیت دو افراد کی موت کا دکھ اپنی جگہ لیکن لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کئے گئے پاکستان اور ہزاروں شہادتوں سے حاصل کئے گئے اس  دھرتی  ماں کے امن پر بات آئے تو جذبات الگ ہی ہوتے ہیں۔

اس واقعہ کو سو فیصد نجی تنازعہ سے جڑتا اور پرامن کراچی کے حوالے سے اپنے دعووں کو سچ ثابت ہوتا ہوا دیکھ کر میں خود بھی متعلقہ افراد سے رابطوں میں مصروف ہوگیا۔

تھوڑے ہی وقت میں مجھے ان دونوں افراد کے قتل کے پس پردہ اصل حقائق مل گئے تو تقریب میں موجود دوستوں کو اس واقعہ کے اصل حقائق سے آگاہ کرکے اپنے اصل موقف کا اعادہ کیا کہ کراچی پرامن اور پاکستان دہشت گردی سے پاک ہے۔

اگلے روز میں پاکستان واپس پہنچا تو کراچی میں بیشتر میڈیا پرسنز کی جانب سے پاکستان بھر کے پریس کلبوں پر سیاہ جھنڈے لہرانے کے اعلانات پڑھ کر تشویش ہوئی۔

پھر اگلے روز کراچی میں صحافتی تنظیم سے منسلک بعض مافیا نما مفاد پرست کرداروں کی جانب سے احتجاج دیکھ کر ان کی عقل پر رونا آیا۔ پھر جب گہرائی میں گیا تو اس کے پیچھے میڈیا کے بدنما داغ بنے کرداروں کی دکانداری چمکتی نظر آئی جو بیرون ملک سیاسی پناہ لینے کے لئے اس طرح کے حالات کو بہتی گنگا قرار دیتے ہیں۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بعض مفاد پرست میڈیا پرسن پاکستان میں میڈیا کے برے حالات، کسی صحافی پر حملہ، اغواء یا قتل، کسی میڈیا ہاؤس پر حملے جیسے واقعات کو آڑ بنا کر امریکہ، برطانیہ، یورپ یا دیگر ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس طرح کے لوگوں کے پرانے کیسز غیر ملکی عدالتوں میں زیرسماعت ہوتے ہیں کہ پاکستان میں کسی صحافی پر حملہ، اغواء یا قتل کی تازہ رپورٹس کو جواز بنا کر وہ عدالتوں میں اپنا موقف سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میڈیا پر حملوں کے واقعات کتنے بھی ذاتی نوعیت کے ہوں، ملک دشمن اور مفاد پرست عناصر ابتدائی نوعیت کی خبروں کے اسکرین شاٹس یا اخباری تراشے اپنے کیسز کی فائلوں میں لگا دیتے ہیں۔

احتجاجی جلوسوں، ریلیوں یا جلسوں کی ویڈیوز یا تصاویر کو بھی اپنے کیسز میں حصہ بناکر عدالتوں سے فائدہ لے لیتے ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کا واویلا کرکے ملک کو بدنام کرکے سیاسی پناہ حاصل کرکے اپنے خاندان کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں۔

اب بیشتر میڈیا اینکرز کے اسمگلنگ کے دھندے سے منسلک ہونے کی خبروں پر سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اصل صحافیوں کو بدنام کرنے والے اینکرز کے پاس سرمایہ کاری کے لئے اربوں روپے کہاں سے آئے؟ معصوم میڈیا ورکرز کی جمع پونجی لوٹ کر اینکرز کروڑ پتی کیسے بن گئے؟؟

ان سوالات کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ جب جواب دینے کا وقت آیا تو سوشل میڈیا پر اس واقعہ پر دہشت گردی کے پیغامات سجانے والے غیر تربیت یافتہ اور پیرا شوٹرز میڈیا پرسنز نے وہ تمام پیغامات گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب کردیئے۔

ایسے لوگوں سے گذارش ہے کہ وہ کسی بھی واقعہ کے مصدقہ ہونے تک اپنا یہ گھناؤنا دھندہ بند رکھا کریں۔

ان کو اندازہ ہونا چاہئے کہ بعض اوقات پاکستان سے منسلک کرکے سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے ان کے ایک ایک لفظ کی اس ملک کو بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔

تازہ ترین