• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کے ارکان مسلسل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی اقتصادی پالیسیوں سے پاکستان کی معیشت بہتر ہو جائے گی اور لوگوں کی مشکلات کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن پاکستان کے ’’ یوٹوپیائی ‘‘ ( مثالی ) ریاست بننے تک کی مدت میں کیا ہو گا ؟ اس کے بارے میں انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ اس دوران کیا ہو سکتا ہے ؟

حالات بہتر ہونے میں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے ۔ اس بارے میں تحریک انصاف کے حکمران کسی ایک مدت پر متفق نہیں ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کے مختلف بیانات سے ماخوذ عرصہ دو سے تین سال ہے ۔ تحریک انصاف کے دیگر ذمہ د اروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عرصہ زیادہ بھی ہو سکتا ہے ۔ معاشی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کوئی حتمی وقت دینے کے لیے تیار نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے اس پروگرام سے بھی پہلے کی طرح فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور درست فیصلے نہ کیے گئے تو انجام بھی ماضی سے مختلف نہیں ہو گا ۔ البتہ ایف بی آر ( فیڈرل بورڈ آف ریونیو ) کے نئے چیئرمین شبر زیدی کو یقین ہے کہ ایک سال میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے ۔ اگر کم سے کم مدت ایک سال بھی تصور کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو 365 دن صبر سے کام لینا پڑے گا لیکن اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی اکثریتی غریب آبادی کے لیے ایک ایک دن بھی گزارنا مشکل ہو گیا اور ہر اگلا دن ان پر مزید عذاب بن کر نازل ہو رہاہے ۔ ’’ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک ‘‘ مرزا اسداللہ خان غالب کا یہ مصرعہ تو اب ہر زبان پر ہے ۔ یہ تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں بڑھک مار رہی ہیں کہ وہ کسی کو نان اور روٹی مہنگی نہیں بیچنے دیں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ روٹی اور نان دو روپے مہنگے مل رہے ہیں ۔ بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعے لوگوں سے روٹی چھینی جارہی ہے ۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعہ لوگوں سے روٹی چھیننے والے بازاروں سے گھروں تک آ گئے ہیں ۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے اگلے روز پریس کانفرنس کے دوران جب یہ سوال کیاگیا کہ آٹا کیوں مہنگا ہو رہاہے اور نان بائی روٹی اور نان کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں تو ان کا جواب یہ تھا کہ ایف بی آر نے آٹے پر کوئی ٹیکس نہیں لگایاہے ۔ آٹا مہنگا ہونے کا ذمہ دار ایف بی آر نہیں ہے ۔ ’’ اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا ‘‘ ۔

وزیر اعظم عمران خان نے اگلے روز کراچی میں معیشت کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمائندہ افراد سے اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ ملاقاتیں کیں اور انہیں اپنی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے بارے میں اعتماد میں لینے کی کوشش کی ۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والے غیر مطمئن لوٹے ۔ ان ملاقاتوں کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب میں اس امر کا اعترا ف کیا کہ ملک میں مہنگائی ہے ۔ وزیر اعظم نے اس مہنگائی کا یہ سبب تو بیان کیاکہ سابقہ حکمرانوں کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ملک کی اکثریت غریب آبادی کو مہنگائی کے اس عذاب سے بچانے کے لیے حکومت کیااقدامات کر رہی ہے ۔ صرف یہ آسرا دیا جا رہاہے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے ۔ کب تک ٹھیک ہوں گے ؟ اس کا بھی کوئی واضح جواب نہیں ہے ۔ بقول اسداللہ غالب ’’ ہم نے مانا کہ تغافل نہیں کرو گے لیکن ۔۔۔ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک ‘‘

اس وقت ملک کی صورت حال یہ ہے کہ ’’ عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب ‘‘ لوگوں میں برداشت بھی ہے اور بے چینی بھی ۔ معاشی ٹیم والے تاریخ اور سیاست کے رموز نہیں سمجھ سکتے ۔ سیاسی جماعتوں نے لوگوں کو احتجاج کی کال نہیں دی ہے ۔ لوگ ازخود باہر نکل رہے ہیں ۔ جس وقت وزیر اعظم عمران خان کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ عوام ان کی حکومت کے ساتھ ہیں ، عین اسی وقت سیالکوٹ اور پنجاب کے دیگر شہروں میں مہنگائی کے خلاف مظاہروں کی خبریں چل رہی تھیں ۔ تاجروں کی طرف سے ملک گیر ہڑتال کرنے کے اعلان کی خبریں چل رہی تھیں ۔اپوزیشن کی سیاسی قیادت کی طرف سے ابھی تک نہ تو ’’ سول نافرمانی ‘‘ کی باتیں کی گئی ہیں اور نہ ہی بجلی او رگیس کے بل جمع نہ کرانے کی اپیلیں ہوئی ہیں ۔ لوگ خود اپنا راستہ بنا رہے ہیں ۔ اس سیاسی بے چینی سے بہت سی ملکی اور غیر ملکی قوتیں فائدہ بھی اٹھا سکتی ہیں ۔ مہنگائی ، بے روزگاری اس اضافے اور اقتصادی سرگرمیوں میں کمی کے سیاسی اثرات کا ادراک کرنا بہت ضروری ہے ۔ معیشت تو جب ٹھیک ہو گی ، ہو جائے گی لیکن تب تک دیگر عوامل کو نظر انداز کرنا بہت خطرناک ہو گا۔

تازہ ترین