• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور سعودی عرب سمیت 37 ملک ایغور مسلمانوں کے متعلق چینی مؤقف کے حامی

کراچی (جنگ نیوز) پاکستان ، سعودی اور روس سمیت 37ممالک ایغور مسلمانوں نے متعلق چینی موقف کی حمایت کردی ہے اور ان ممالک کے سفیروں نے اقوام متحدہ کو لکھے گئے خط میں چین میں انسانی حقوق کی تعریف کی تاہم اس سے قبل 22ممالک نے اقوام متحدہ کو خط میں چین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان،سعودی عرب،روس سمیت37ممالک ایغور مسلمانوں کے متعلق اقوام متحدہ کو لکھے گئے 22ممالک کے خط کے حوالے سے چین کے دفاع میں آگئے،دس جولائی کودنیا کے بائیس ممالک کے گروپ نے چین میں مسلمانوں کی حالت زار کے متعلق اقوام متحدہ کو ایک خط ارسال کیا تھا، خط میںان ممالک کی جانب سے چین پر زور دیا گیا کہ وہ چین میں رہنے والے لاکھوں ایغور مسلمانوں کی گرفتاریاں بند کرے۔ اس خط میںبڑے پیمانے پر حراستی مرکز اور کڑی نگرانی کے ساتھ ایغور مسلمانوںپر عائد پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔یہ اس بارے میں اپنی نوعیت کی پہلی مشترکہ کوشش تھی۔تاہم اس خط کے جواب میں اقوام متحدہ میں پاکستان،سعودی عرب ،نائجیریا،الجیریا،شمالی کوریا،روس سمیت37ممالک کے سفیروں نے بیجنگ کی طرف سے عالمی ادارے کو خط لکھا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ چین نے دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کا سامنا کیا تھا،تاہم انسداد دہشت گردی اقدامات اور ووکیشنل ٹریننگ کے نتیجے میں وہاں امن اور سیکورٹی بحال ہوئی ہے۔اقوام متحدہ کو لکھے گئے 37ممالک کے خط میں چین میں انسانی حقوق کی تعریف کی گئی۔ اس سے قبل ہیومن رائٹس کیلئے اقوام متحدہ ہائی کمیشنر کو لکھے گئے خط پر آسٹریلیا،برطانیہ ،جرمنی،جاپان،کینیڈا،نیوزی لینڈ سمیت 22ممالک کے سفیروں نے دستخط کیے ۔22ممالک میں 18ممالک کاتعلق یورپی یونین سے ہے۔تاہم اس میں کوئی بھی مسلمان ملک نہیں۔کچھ عرصہ قبل ترکی نے چین کے حراستی کیمپوں کو تنقید کا نشانہ بنایا مگر اس بار اس نے دستخط نہیںکیے۔جولائی کے اوائل میں ترکی صدر نے بیجنگ کا دورہ کیا اور کہا کہ ان کیمپ ایشوز کااستحصال نہیں کیا جانا چاہیے۔تاہم اس مشترکہ بیان پر کسی بھی اکثریتی مسلم ملک نے دستخط نہیں کیے۔یہ خط فورم کے صدر کو آٹھ جولائی کو لکھا گیا اور اس میں چین سے 47 رکنی فورم کا حصہ بننے پر مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بلند معیار قائم کرنے پر زور دیا گیا۔خط میں چین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بین الاقوامی اور ملکی قوانین پر عمل کرتے ہوئے سنکیانگ سمیت پورے ملک میں بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کا احترام کرے۔ وہ اویغور اور باقی مسلمانوں سمیت سنکیانگ میں موجود تمام اقلیتوں کی بے قاعدہ گرفتاریاں اور آزادانہ نقل و حمل پر عائد پابندیاں ختم کرے۔ چین سے یہ تقاضہ بھی کیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشنر مشیل بیچلیٹ سمیت بین الاقوامی ماہرین کو سنکیانگ تک آزادانہ رسائی دے۔ ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ اویغور اور باقی اقوام سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میںوسیع ’’ری ایجوکیشن اسٹائل‘‘ کیمپوں میںزیر حراست رکھا جا رہا ہے۔ چین نے خط کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے مسئلے کو سیاسی رنگ دیا جارہاہے۔چین نے کہا کہ یہ ممالک اپنے متعصبانہ رویے کو ترک کریں اور ان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کریں،چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کو خط ’چین کے خلاف حملہ، بہتان اور غیر ضروری الزامات‘ پر مبنی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کی جانب ے کونسل اجلاس کے دوران اس خط کا پڑھے جانا یا اس بارے میں قرارداد پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا جو پورا نہیں ہو سکا۔ امریکہ گذشتہ برس اس کونسل سے علیحدگی اختیار کر چکا ہے۔ مشیل بیچلیٹ نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ سنکیانگ میں مسلمانوں کے لاپتہ اور گرفتار کرنے کی اطلاعات پر اقوام متحدہ کو تحقیقات کی اجازت دے۔گذشتہ ماہ جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے چین کے سفیر نے امید ظاہر کی تھی کہ مشیل بیچلیٹ دورے کی دعوت کی درخواست قبول کریں گی۔ایک سفارت کار نے رائٹرز کو بتایا کہ چینی وفد اس خط پر’شدید برہم‘ ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے اس خط کو یہ کہہ کر سراہا گیا کہ یہ نہ صرف سنکیانگ کے رہائشیوں کے لیے اہم ہے بلکہ دنیا بھر کے ان لوگوں کے لیے بھی جو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں طاقتور ممالک کا بھی احتساب کر سکتی ہے۔تین ہفتوں پر مشتمل اجلاس کے آغاز کے موقع پر سنکیانگ کے نائب گورنر نے عالمی برادی کی جانب سے ریاستی حراسی مراکز کی مذمت کے جواب میں کہا تھا کہ یہ دراصل تربیتی مراکز ہیں جو لوگوں کو شدت پسند رجحانات سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔گذشتہ ہفتے ایک تحقیق میں یہ کہا گیا تھا کہ چین میں ہزاروں مسلمان بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں اس کوسماج کی دوبارہ تشکیل اور تقافتی نسل کشی قرار دیا گیا تھا۔

تازہ ترین