• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخری کالم لکھے تقریباً چارہفتے ہوچلے ہیں اور اس دوران قارئین کو بھی یقینا آرام رہا ہوگا اور ہمیں بھی کافی افاقہ ہے۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ ویسے تو اسی روز سے ہی تعطل کا شکار ہے جس روز سے ہم نے ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھا۔ تاہم یہ منقطع ہوا لانگ مارچ پر۔ اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں تھی کہ ہم خدانخواستہ لانگ مارچ میں شریک ہوئے یااپنے چند جید ٹاک شو میزبانوں کی طرح ٹی وی کے آگے بیٹھے لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی صورتحال کا بنظر غائر جائزہ وغیرہ لیتے رہے۔
لانگ مارچ کی مجموعی حیثیت ”گلاس توڑا بارہ آنے“ سے بڑھ کر نہیں تھی مگرہمیں اس پر ہفتے کے تینوں دن خبرناک لائیو کرنا پڑا جس کے سبب ہم مختلف مہمان تجزیہ کاروں کو تلاش کرنے میں مصروف رہے۔ اسی بہانے سہیل وڑائچ، ایاز امیر، صابرشاہ اور استاد ِ مکرم عطاالحق قاسمی صاحب کے درشن ہوگئے۔ خوب مزا کیا اور وہ تمام دن جن میں ہم کالم نویسی کا ”ارتکاب“ کیا کرتے ہیں، یونہی ہلے گلے میں گزرگئے۔
اگلا ہفتہ تھا تو خاصا خاموش مگر سردی نے وہ مت ماری کہ کالم تو درکنار اپنے شو کا سکرپٹ لکھنا بھی محال نظر آیا۔ رہی سہی کسر گیس اور بجلی کی کمیابی نے نکال دی۔ ایک روز چند دوستوں کے ساتھ باہر لان میں بیٹھنے کی حماقت کر بیٹھے۔ سردی کی شدت سے ناک، کان، گلا و چند دیگر حساس مقامات اس بری طرح سے فریز ہوئے کہ پوچھیں ہی مت!
اگلے ہفتے ایک نیا حادثہ پیش آگیا۔ بیگم صاحبہ نے ہماری ”کالم کرسی“ برائے مرمت ورکشاپ بھیج دی۔ ہمارے پاس ایک صوفہ نما کرسی ہے جو ایک بہت بڑی خوبی اورایک بہت بڑی خامی کی حامل ہے۔ خوبی یہ ہے کہ ہم نے پوری دنیا میں اس سے زیادہ آرام دہ کرسی نہیں دیکھی۔ یہ بیک وقت کرسی بھی ہے، صوفہ بھی، پلنگ بھی، میز بھی اور بقول ہمارے دوست ناہنجار صاحب کے اگر تھوڑی قطع و برید کرلی جائے تویہ چیز دیگر تمام اشیاء ہونے کے ساتھ ساتھ الماری، کشتی، بحری جہاز، موٹرسائیکل اورغالباً ویکیوم کلینر بھی ہے۔
بہرحال ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی خامی اس میں یہ ہے کہ ہمارے لئے اس کے بغیر اب ٹی وی دیکھنا یا کالم لکھنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ کرسی ٴ اقتدار کی طرح ہمیں بھی اس کرسی کی عادت بلکہ لت پڑ چکی ہے۔ ورکشاپ والے نے آگے کسی دوسری ورکشاپ بھیج دی ہے اوروہاں کے مستری صاحب کے ساتھ ہماری جان پہچان ہے نہیں۔اس لئے بذریعہ ٴ کالم ہذا ان سے التماس ہے کہ جونہی یہ سطور پڑھیں ہماری کرسی واپس کردیں۔ ہم اس کے عوض ان سے کوئی دوسری چیز مثلاً دروازہ، موبائل فون، گیزر یاگٹار وغیرہ ٹھیک کروالیں گے۔
لیں جناب یہ ہفتہ بھی گزر گیا۔ اگلے ہفتے بہرصورت کالم لکھنے بلکہ ایک سے زائد کالم لکھنے کا مصمم ارادہ کرکے ہم پہلی فرصت کا انتظارکرنے لگے۔ اس دوران قوم کو دوچار اہم خوشیاں بھی نصیب ہوئیں مگر ہم پھر بھی کالم نہ لکھ سکے حالانکہ اسلم رئیسانی سے نجات ایک تاریخی واقعہ تھا مگر ”قلم اٹھاتے“ ہی اولے پڑ گئے ۔ عین اس وقت دلّی سے ہماری بزرگ دوست گیتا ٹھاکر کا فون آگیا کہ ”پرسوں لاہور پہنچ رہی ہوں اپنے وعدے کے مطابق مجھے فوراً کھانے پر مدعو کرو۔“
گیتا کا شماران بھارتی دانشوروں میں ہوتا ہے جو پاکستان کے ساتھ دوستی ہی نہیں عشق و محبت کی خواہش رکھتے ہیں۔ آپ کی نانی محترمہ کا تعلق بھی ہمارے آبائی شہر اوکاڑہ سے تھا ۔ بقول ان کے یہاں کسی دور میں سہگلوں کا کنواں ہوا کرتا تھا اور یہی اس محلے کا نام بھی تھا۔ اس حوالے سے ہماری ذاتی معلومات تو خیراس قدر مستند نہیں ہیں مگر ہم اپنے تمام باخبر دوستوں سے گزارش ضرور کریں گے کہ جس جس کے پاس جو جو روایت موجود ہو وہ ہمارے ساتھ شیئر ضرور کرے۔
سرحد پار سے آئے دوستوں کو گھر بلا کر لاہور کے چند لاجواب تاریخی کھابوں سے متعارف کروایا۔ ”خبرناک“ کی ساری ٹیم بھی اس دلچسپ تقریب میں شریک تھی۔ پورا ویک اینڈ اسی پر صرف ہو گیا اور یوں کالم لکھنے کاایک مزید موقع ہاتھ سے نکل گیا۔
اس ہفتے ہمارے پاس چونکہ بہانہ کوئی نہیں اس لئے ہمیں کالم بہرحال لکھنا ہے اور ویسے بھی اگر بندہ تھوڑی سی
نیک نیتی کا مظاہرہ کرے تو ہفتے میں دو ایک کالم تو ہو ہی جاتے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ اب کالم کی طرف طبیعت مائل ہی نہیں ہوتی اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ حرف اپنی حرمت کھو چکے ہیں۔ اب لکھے ہوئے لفظوں کا اثر وہ نہیں ہوتا جوکبھی ہوا کرتا تھا۔ ایک وقت تھا کہ کالم نویسی ہماری رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی اور ہم تقریباً ہر روز ایک عدد کالم لکھ مارتے تھے مگر آج دعائیں کرتے ہیں کہ کاش ایسا کچھ نہ کچھ ضرور ہو جائے کہ جسے بہانہ بنا کر کالم سے گلوخلاصی کروائی جاسکے۔بہرحال حالات ہمیشہ ہی ایسے نہیں رہیں گے۔ اس قوم کے دل و دماغ پر جمی برف کبھی نہ کبھی ضرور پگھلے گی۔ حرف کی حرمت انشا اللہ بار ِ دیگر بحال ہوگی اور لکھے ہوئے لفظ پھر سے اثر دکھانے لگیں گے۔ سچ پوچھیں توایسا ہوتا دکھائی بھی دینے لگا ہے۔ احتساب کا مدتوں سے مقفل پڑا دریچہ پھر سے وا ہوتا نظر آتا ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ، پرنسپل سیکرٹری اور صاحبزادے کے اثاثے منجمد ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ دوتین اعلیٰ پولیس افسر بدعنوانی کے الزام میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ وفاق اور چاروں صوبوں میں گزشتہ پانچ برس کے دوران ہونے والی کرپشن کے اعداد و شمار اکٹھے ہونے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ چنانچہ آنے والے دنوں میں لکھنے او ر کہنے کو بہت کچھ ہوگا مگر فی الحال تو ہم بہانے ہی تلاش کر رہے ہیں۔ فراز# کا یہ شعر دیکھئے:
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے!
تازہ ترین