• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہنگامہ برپا ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 62,63پر من و عن عملدرآمد ہوا تو صف اول کے سارے سیاستدان بشمول میاں نواز شریف، صدر آصف علی زرداری، راجہ پرویز اشرف، اسفند یار ولی، چودھری صاحبان، حتیٰ کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی نااہل قرار پائیں گے۔ کیا ہم یہ رسک لے سکتے ہیں؟
اپنے عقیدے، نظریے، سیاسی و سماجی ڈھانچے پر اعتماد کرنے کی بجائے چند شخصیات کی پرستش کرنے اور انہیں مسیحا سمجھنے والوں کو یہ سوال اٹھانے کا حق ہے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ پوشی فرمائی تو حضرت عمر تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے کہ ”جس شخص نے کہا حضور اب دنیا میں نہیں رہے، اس کی گردن اڑا دونگا“ یار غار رسول حضرت ابو بکر صدیق نے عمر کے شانے پر ہاتھ رکھا اور کہا ”عمر تم قرآن مجید کی یہ آیت بھول گئے، حضرت محمد اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول آچکے ہیں کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے“ عمر کو قرار آگیا۔ حضور کے بعد بھی اسلام پھلا پھولا اور تاقیامت مخالفین کے سینے پر مونگ دلتا رہے گا ۔ مگر ہم حضور کے امتی اور عاشق یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ چند شخصیات انتخابی منظر نامے سے اوجھل ہوجائیں تو جمہوریت پھل پھول سکتی ہے بلکہ ممکن ہے بہتر انداز میں پھل پائے، شخصیت پرستی کا کیا علاج؟
تین طرح کے لوگ امیدواروں کی اہلیت کے بارے میں ان آئینی دفعات کے مخالف ہیں اولاً اباحیت پسند اور مذہب گریز عناصر جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف صادق اور امین سے چڑ ہے جو اپنی شامیں خوشگوار گزارنے کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر شہر کو لاس ویگاس دیکھنے کے متمنی ہیں۔ قحبہ خانے، جوئے کے اڈے اور مئے ارغوانی کی فراوانی۔ ثانیاً زندگی بھر قومی وسائل لوٹنے، عوام کی جیبیں کاٹنے اور دھن دھونس دھاندلی کے ذریعے اقتدار پر قابض رہنے والے جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار جو سمجھتے ہیں کہ سکروٹنی کا عمل ان کے لئے پھندا ہے اور وہ قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ ثالثاً موجودہ مکروہ اجارہ دارانہ انتخابی نظام کو جمہوریت سمجھنے والے وہ سادہ لوح جنہیں اندازہ ہی نہیں کہ شخصیت پرستی کے موذی مرض نے مسلم امہ اور پاکستان کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا ہے۔ اس بنا پر آج تک ادارے وجود میں نہیں آسکے اور سیاسی جماعتوں نے خاندانی و موروثی جائیدادوں کی صورت اختیار کرلی ہے۔ باپ اور ماں کے بعد بیٹا، بھتیجا اور بیٹی۔ ایک ہی خاندان کے لوگ سیاسی جماعت اور اقتدار پر قابض ہیں اور باقی ان کے زرخرید ملازمین یا بندہٴ بے دام۔
میں ذاتی طور پر ہرگز یہ نہیں سمجھتا کہ پاکستان کی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں اوپر سے نیچے تک سارے چور، اُچکے، رسہ گیر، بدکار اور لٹیرے جمع ہیں۔ مسلم لیگ ہو، پیپلز پارٹی یا اے این پی ان میں ایسے ایسے رہنما اور کارکن موجود ہیں جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ ٹاپ لیڈر شپ کے بارے میں بھی، میں یہ حسن ظن رکھتا ہوں کہ وہ 62,63پر پورا اترتی ہے البتہ ان کے بعض شاطر حاشیہ نشین اپنی بد اعمالیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ باور کراتے ہیں کہ والا تبار ! اگر 62,63پر عملدرآمد ہوا تو سب سے پہلا کلہاڑا آپ پر چلے گا اور لیڈر بھی الا ماشا اللہ ایسے کاٹھ کے اُلّو ہیں کہ اپنا جائزہ لینے کی بجائے ان حاشیہ نشینوں کی بات کا اعتبار کرکے یقین کرلیتے ہیں کہ وہ واقعی جرائم پیشہ، نادہندہ اور پانچوں عیب شرعی کا مجموعہ ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 6پر آج تک اس لئے عمل نہ ہوسکا کہ احساس کمتری کا شکار ہمارے سیاسی حکمران حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں سے ڈرتے ہیں 62,63کی مخالفت اس بنا پر کی جا رہی ہے کہ یہ اپنے اور اپنے حاشیہ نشینوں، دوست احباب کے کرتوتوں سے خوفزدہ ہیں۔ یوں پاکستان سیاست مہم جو جرنیلوں، بدکردار جاگیرداروں، زانی، شرابی، منشیات فروش، سرمایہ داروں، ٹیکس چور، بینک ڈیفالٹرز، جعلی ڈگری ہولڈرز اور اپنے ووٹروں کی عزتوں عصمتوں سے کھیلنے والے سینہ زوروں کا کھیل بن گئی ہے، طوائف گھری ہوئی ہے تماش بینوں میں۔
مگر اس طبقاتی سیاست نے ملک و قوم کو دیاکیا ہے؟ دہشت گردی، بدامنی، لاقانونیت، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار، کھربوں روپے کے قرضے، اشرافیہ کے لئے ٹیکسوں کی چھوٹ اور غریب آدمی کے لئے بجلی، گیس کی بندش، ناخواندگی، موذی امراض، بھوک پیاس، کیپٹل فلائٹ اور برین ڈرین؟ دھن دھونس، دھاندلی کے ان لات منات نے پاک سرزمین کو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا، جس پر اقبال اور قائد کی روح تڑپتی ہوگی مگر بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ کنواں پاک کرنے کے لئے پانی نکالتے جائیں کتا فی الحال رہنے دیں، کہیں سسٹم ڈی ریل نہ ہو جائے۔ احتساب اور تطہیر کا عمل معاشرے کو تباہ کردیگا اور گندگی کو قالین تلے چھپانے کی روش سے جمہوری نظام مضبوط ہوگا، عجیب منطق ہے۔
مجھے تو اپنا، اپنے بچوں اور پاکستان کا مستقبل عزیز ہے جو بے لاگ احتساب کے بغیر ہرگز محفوظ نہیں۔ اگر اپنی بداعمالیوں اور برے کردار کی بنا پر ہماری ٹاپ لیڈر شپ بھی انتخابی عمل سے خارج ہوتی ہے تو ہوجائے۔ آخر یہ قوم بانجھ تو نہیں ان سے پہلے بھی کئی لوگ سیاست کیا دنیا چھوڑ کر اگلے جہان سدھار گئے۔ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے ہیں مگر کاروبار زندگی چل رہا ہے، عدلیہ بحالی تحریک کے دوران ہر سیاستدان، قانون دان اور قلمکار کی زبان پر حضرت عمر کے احتساب کا واقعہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھی بار بار دہرایا جاتا کہ ”جرم اگر فاطمہ بنت محمد کریگی تو سزا پائے گی“ مگر اب ہر ایک، جرائم پیشہ افراد کے دفاع پر کمر بستہ ہے، نہ آئین مقدس ہے نہ عدالتوں پر اعتبار ہے اور نہ معاشرے کی تطہیر کی فکر۔
یوں لگتا ہے کہ آئین اور قانون صرف اٹھارہ کروڑ شودروں کو حوالات، جیلوں اور پھانسی گھاٹوں تک پہنچانے کے لئے بنائے گئے کسی برہمن، پنڈت ،پروہت پر اطلاق ممنوع ہے کیونکہ یہ صرف حکمرانی کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ مرحوم پیر صاحب پگاڑا نے درست فرمایا تھا ”کیک کا ٹکڑا کھانے والوں کی گرفت ہور رہی ہے، مگر بیکری ہضم کرنے والوں سے پوچھنا منع ہے“ بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لئے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین ،آزاد اور خود مختار عدلیہ، قانون کی حکمرانی اور صاف ستھرے طرز حکومت کی باتیں ڈھونگ ہیں، ڈھکوسلہ ہے ہمیں صرف عادی مجرم اور پیدائشی لٹیرے ہی سازگار ہیں ورنہ آرٹیکل 62,63کی مخالفت میں دائیں بائیں بلا تفریق صف بندی کا کیا جواز ہے؟
تازہ ترین