رابطہ…مریم فیصل 1992میں پاکستان نے انگلینڈ کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیتا لیکن ابھی تک اس جیت کا ذکر اس طرح کیا جاتا ہے جیسے یہ اب ہر زمانے میں جیت کا ضامن بن چکی ہے۔ خیال آتا ہے کہ پاکستانی قوم1992 سے کب باہر نکلے گی۔ اس ہندسے کو قوم نے ایسا پکڑ لیا ہے کہ اس کے سحر اور اس خواب کی دنیا سے باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں۔ ستائیس سال بیت گئے لیکن اب تک ماضی اس قوم کا پیچھا چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ ذرا تو عقل استعمال کریں 1992میں جو بچے پیدا ہوئے وہ بھی اب ستائیس سال کے ہوں گے اور اگر وہ کرکٹ کھیل رہے ہوتے تو وہ بھی اب ریٹائرڈ ہوں یا شاید 2023کا ورلڈ کپ کھیلنے سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں۔ اس وقت جو ٹیموں کے کپتان تھے وہ بھی گمنام ہستی بن کر اب صرف تبصرہ نگاروں کی شکل میں کبھی کبھی اپنی شکل دکھاتے ہیں مگر لگتا ہے 1992اب بھی قوم کے تصورات میں روز اول کی طرح زندہ ہے۔27 برسوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی چاند پر انسانی قدم رکھنے کا ذکر تو چھوڑیں کہ اب بہت نئی مثالیں آگئی ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا درجہ دیکھیں۔ کیا کیا نہیں ہوا۔ بیسویں صدی ایجادات کی صدی رہی۔ پہلے کمپیوٹر کا سائز یاد کریں یہ اب اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کی شکل میں انگلیوں پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ فخر کرنے کی باتیں تو ہیں کہ مسلمان قوم نے صدیوں پہلے تعلیم اور طب میں کارہائے نمایاں انجام دئیے لیکن اب صدیوں بعد تعلیم اور طب کے شعبوں کی ترقی یورپی ممالک کی مرہون منت نظر آتی ہے۔ تعلیم کا میعار کہاں پہنچ چکا ہے، کون سی بیماری ہے جس کی دوا موجود نہیں اب صحت و تندرستی اور موت زندگی تو خدا کے ہاتھ میں ہے ورنہ ہر بیماری کا علاج موجود ہی ہے۔ اب وہ وقت ہے کہ ماضی سے نکلنا ہوگا۔ ماضی کی خوبصورت یادوں کو یاد کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ ماضی میں ہی جیتے رہو۔ اس وقت یہ ہوا تھا ہم نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا ہمیں یہ کامیابی ملی تھی لیکن کیا اس کا صرف یہ مطلب ہوا کہ بس ماضی کے بعد نہ کچھ کرنا ہے نہ ہی اس سے آگے کچھ سوچنا ہے۔ ماضی ہی کل سرمایہ ہے حال کا کچھ پتا نہیں مستقبل کی کوئی فکر نہیں1992کو لے لیجیے اس کے بعد پاکستانی ٹیم کتنی بار ورلڈ کپ کی ٹرافی جیت سکی ہے۔ ٹیم میں جو کھلاڑی ستائیس سال پہلے تھے اب بھی ہیں۔ نہیں وہ تو اب یا تو یورپ میں کہیں بس گئے ہیں یا تجزیہ نگاری کر رہے ہیں ٹیم کو مشورے دے رہے ہیں۔ خود کرکٹ میں ہی ستائیس برسوں میں کتنی تبدیلی ہوگئی ہے۔ پہلے ٹی ٹونٹی کا تصور نہیں تھا اب بیس اوورز میں ہی ہار جیت کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اتنے برسوں میں گیم میں کیا کیا تبدیلیاں ہوگئیں لیکن ہم وہیں کے وہیں رہ گئے ہیں۔ 1992کا ورلڈ کپ اور اس میں جیتنا، ماضی سے نکلنا ہوگا حال کا سوچنا ہوگا مستقبل کے بارے میں سوچنا ہوگا، اس وقت کی جیت حالات اور ٹیکنیک آج کسی طرح بھی لاگو نہیں ہوتے یہ سال 2019ہے۔ اور آئندہ ہر سال بدلنے کو ہے ماضی میں رہنے کے اس طور نے پاکستانی قوم اور مسلم دنیا کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ تو بھی تو اب بدل جا، یہ وقت ہے سنبھل جا، مستقبل کو حال اور ماضی بننے میں کوئی زیادہ ٹائم نہیں لگتا۔ آئیڈیل اور تصورر ایک چیز ہے اور حقیقت اور عمل دوسری۔ آخر میں جیت اسی کی جو عمل کو اپناتا ہے مشکل یہ ہو گئی ہے کہ قومی حیثیت میں بھی پاکستانی لوگوں میں عمل کی صلاحیت انتہائی کمزور پڑ چکی ہے انہیں کوئی بتانے والا نہیں کہ اب خوابوں سے نکلیں اور حقیقی دنیا میں کچھ کر کے دکھائیں جو بتاتا ہے اسے وہ زندہ نہیں رہنے دیتے اپنے لیڈروں سے بھی گزارش ہے کہ لوگوں کو صرف مستقبل کے سہانے خواب اور ماضی کی فتوحات ہی میں نہ رکھیں بلکہ انہیں بتائیں کہ آج کچھ کرو گے تو کل کچھ پائو گے وگرنہ دنیا اور وقت آگے بڑھ جائے گا اور ہم منہ تکتے رہ جائیں گے1992گزرے عرصہ ہوچکا ہے اور ہم اب بھی 2019 میں جی رہے ہیں۔ یہ نہ بھولیں۔