• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سرفراز تبسم…لندن
یقین کیجئے آنکھ جھپکتے ہی وقت گزر گیا ہے ایک وقت تھا جب لاہور سے شائع ہونے والے سرکاری ادبی مجلہ ’ماہِ نو‘ میں کسی نہ کسی کتاب پرمیراتبصرہ شائع ہوا کرتا تھا۔ اُس کی خاص وجہ یہ تھی کہ مجھے روزانہ کی ڈاک میں کوئی اکثرکتابیں موصول ہوتی رہتی تھیں اور یوں طبیعت اس طرف مائل رہتی تھی ہمہ وقت ایک ایسی لکھنے پڑھنے کی فضا میںر رہتا تھا کہ آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سب خواب سا لگتا ہے، خیر زندگی کا اصول یہی ہے کہ زندگی کو آگے کی طرف دھکیلا جائے۔ جہاں تک’ نذرِ آتش‘ کا تعلق ہے تو میری بدقسمتی کہ اسے پورا نہیں پڑھ سکا تاہم وہ فارسی کی ایک مثل مشہور ہے کہ( مشُتِ اَزخَردر ایں) جس کا ترجمہ ہے کہ ایک مٹھی چاول سے ہی آپ پوری دیگ کا ذائقہ جان لیتے ہیں، آیئے آج آپ بھی میرے ساتھ اس کتاب کی سیر کریں میرے زیرِ نظر کتاب ’’نذرِآتش‘‘ بلاشبہ ایک حوالے کی کتاب ہے جس میں دیس بدیس کی سیاسی، سماجی اور مختلف معاشرتی کمزوریوں کو موضوع بحث بنایا گیاہے، ان کے کالم پڑھتے ہوئے آپ کوتحریر نگارکے پختہ کار منجھے ہوئے صحافی ہونے کا احساس ہوتا ہے جو بڑی مہارت سے ہر طرح کے پھیلے ہوئے موضوعات کو کوزّے میں سمیٹ کر آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں وہ چاہے ’لندن میئر کا الیکشن اورعمران خان کی بات ‘ہو یا’کم از کم اجرت کا قانون ‘ہو یا’کتے کا رنگ ‘ان کے کالم پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کے ہر موضوع کیساتھ انصاف کرنا اسے پورے طور پر نبھانا کتنا مشکل ہے اور یہی مشکل آسان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ بٹ جیسے لوگ مہیا کرتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔
قابل احترام محبوب الٰہی بٹ کی تالیف نذرِآتش کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمہ وقت جن دو خوبیوں کاابلاغ ہوتا ہے وہ عمومی طور پر ہر کسی کے ہاں نہیں ملتی ان میں جس دوسری خوبی کا ذکر میں پہلے کرنا چاہتا ہوں وہ ہے ادب و صحافت سے ان کا رشتہ، میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ اردو زبان و ادب و صحافت میں کئی ایک ادب نواز اور ادب دوست آئے اورادب سے جڑُے مگر بہت کم لوگ ایسے ملے جن کی روح ادب سے جُڑی ہو اور یہ از حد خوشی کی بات ہے کہ بٹ صاحب کی روح ادب سے جڑی ہے اور پہلی بات جو آخر میں پیشِ خدمت ہے وہ ایک نہایت عمدہ خوبی کے ساتھ ساتھ ایک انمول تحفہ بھی ہے جو خدا ہر کسی کو نہیں دیتا وہ ہے بقول شاعر ـ:
کسی کسی کو تھماتا ہے چابیاں گھر کی
خدا ہر کسی کو اپنا پتہ نہیں دیتا
انسان کی تیسری آنکھ جسے معاشرے میں ہونے والی ناہمواریوں کو صرف اور صرف یہ ہی آنکھ دیکھ پاتی ہے اور یوں اس برق رفتار معاشرے میں بسنے والاایک حساس محبوب الٰہی بٹ اس آنکھ سے اپنا مشاہداتی نقطۂ نظر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے وہاں اُس کا مقصّد صرف اور صرف معاشرے کی مثبت اصلاح ہوتا ہے یہ ساری چیزیں خدائے واحد کی عطا کردہ ہوتی ہیں، میری دعا ہے کہ خدا محبوب الٰہی بٹ کی اس تیسری مشاہداتی آنکھ کو اور توانائی عطا فرمائے اور یوں کہ ان کی روح ادب و صحافت سے جڑی رہے تاکہ ہمیں ایسی نادر کتابیں ملتی رہیں۔خدا کرے زورِقلم اور زیادہ ۔
تازہ ترین