• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے گزشتہ کالموں میں تحریر کرچکا ہوں کہ اس بجٹ پر بزنس کمیونٹی کو کچھ تحفظات تھے۔ درمیانے اور بڑے درجے کی صنعتوں کو 5ایکسپورٹ سیکٹرز سے سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کرکے 17فیصد سیلز ٹیکس لگانا جس کا ایکسپورٹرز بعد میں ریفنڈ کلیم کریں گے جو اُن کے کیش فلو کو بری طرح متاثر کرے گا جبکہ چھوٹے درجے کے تاجر شناختی کارڈ کی شرط کے مخالف تھے جس کے مطابق 50ہزار روپے سے زیادہ کی خریداری یا فروخت کیلئے اُنہیں شناختی کارڈ دینا ہوگا۔ میں نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی جانب سے بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد بزنس کمیونٹی کے مسائل پر وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم سے اسلام آباد اور کراچی میں کئی میٹنگز کیں اور مجھے خوشی ہے کہ بزنس کمیونٹی کے کچھ جائز مطالبات مان لئے گئے لیکن درج بالا دونوں مطالبات پر بزنس کمیونٹی اور حکومت کا ڈیڈ لاک ہو گیا جس پر ہماری درخواست پر وزیراعظم عمران خان نے اپنی پوری اقتصادی ٹیم کیساتھ گورنر ہائوس کراچی میں فیڈریشن اور کراچی چیمبر کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے سب سے پہلے مجھے بزنس کمیونٹی کے تحفظات پیش کرنے کو کہا۔ میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ فیڈریشن گورنر اسٹیٹ بینک کی حکمت عملی اور پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتی۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے افراطِ زر یعنی مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے ڈسکائونٹ ریٹ میں مسلسل اضافہ کرکے 12.25فیصد کردیا ہے جس سے بینکوں کے لینڈنگ ریٹس 15فیصد ہوگئے ہیں، ایسی صورتحال میں 160روپے کے ڈالر اور 16سے 17فیصد مارک اپ پر کوئی نئی صنعت نہیں لگائی جاسکتی۔ آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کے 14فیصد ڈسکائونٹ ریٹ کی پیش گوئی کی ہے اور ایسا کرنے کی صورت میں بینکوں کے لینڈنگ ریٹس 16 سے 17فیصد ہو جائینگے جس سے صنعتیں نادہندہ ہو جائینگی کیونکہ موجودہ مقابلاتی دور میں کوئی بھی صنعت اتنا اضافی مالی بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔ صنعتیں بند ہونے سے نہ صرف نئی ملازمتوں کے مواقع ختم ہو جائینگے بلکہ بیروزگاری میں اضافہ ہو گا جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے ایک کروڑ نئی ملازمتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔ میں نے بتایا کہ اصل مسئلہ ڈالر کی بے لگام پرواز ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسٹیٹ بینک روپے فری فلوٹ کرنے کے بجائے اسے کنٹرول ایکسچینج ریٹ میکنزم کے ذریعے کنٹرول کرے کیونکہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے نہ ماضی میں کبھی ایکسپورٹ بڑھی ہے اور نہ اب بڑھے گی۔ ٹیکسٹائل سمیت 5ایکسپورٹ سیکٹرز پر 17فیصد سیلز ٹیکس لگانے اور ایکسپورٹرز کو ریفنڈ کلیم کرنے پر میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ حکومتی معاشی ٹیم نے وعدہ کیا تھا کہ ایکسپورٹرز کے ریفنڈز بنگلہ دیشی ماڈل کی طرح ایکسپورٹ کی پیمنٹس بینک میں آنے کے فوراً بعد آٹو سسٹم کے تحت ایکسپورٹر کے اکائونٹ میں کریڈٹ کردیئے جائینگے لیکن اس سلسلے میں ابھی تک کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا اور ایکسپورٹرز فکر مند ہیں کہ ماضی کی طرح انکے نئے ریفنڈز ادائیگی میں بھی کئی سال کی تاخیر ہوگی۔ شبر زیدی نے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی ایکسپورٹرز ریفنڈ کے سلسلے میں ایک نظام کا اعلان کریں گے۔

اس موقع پر وزیراعظم نے گورنر اسٹیٹ بینک کو میرے تحفظات پر وضاحت دینے کو کہا جس پر باقر رضا نے حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ان مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے چند محدود آپشنز ہیں لیکن طویل المیعاد مدت میں یہ اقدامات ملکی معیشت کو مستحکم کریں گے۔ اس سلسلے میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کی درخواست پر گورنر اسٹیٹ بینک 26جولائی کو فیڈریشن آرہے ہیں جہاں ان سے تکنیکی مسئلوں پر بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کیساتھ بحث ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان نے 50ہزار سے زائد خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 10سے 12ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہو رہی ہے، ایک سال میں جتنا ٹیکس وصول ہوتا ہے، اس کا آدھا قرضوں کے سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ سخت حکومتی اقدامات سے ماہانہ خسارہ 2ارب ڈالر سے کم ہو کر ایک ارب ڈالر پر آگیا ہے۔ معیشت اب پرانے طریقے سے نہیں چلائی جا سکتی اور تمام لوگوں کو ٹیکس دینا ہوگا۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے بتایا کہ 3لاکھ 41ہزار صنعتی صارفین کو سیلز ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے شناختی کارڈ کی شرط رکھی گئی ہے تاکہ قابل ٹیکس آمدنی والے افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ شناختی کارڈ کی شرط صرف 47ہزار سیلز ٹیکس رجسٹرڈ افراد کیلئے ہے۔ ایک کنال یعنی 500مربع گز اور 1000سی سی کی گاڑی یا اس سے زائد کے مالکان کو انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروانا ہوں گے بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی چیئرمین ایف بی آر نے چھوٹے دکانداروں کیلئے فکس ٹیکس نظام لانے پر اتفاق کیا کہ جس سے ان کا شناختی کارڈ کا مسئلہ نہیں ہوگا۔

دوسرے دن جب میں فیڈریشن کے سفارتی عشایئے میں شرکت کیلئے اسلام آباد پہنچا تو میڈیا نے ہڑتال کے بارے میں فیڈریشن کا موقف جاننا چاہا۔ میں نے واضح کیا کہ فیڈریشن جو پورے پاکستان کے بزنس مینوں کی اپیکس باڈی ہے، نے نہ ہڑتال اور نہ صنعتوں کو بند کرنے کی کال دی ہے، ہم معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے حکومت کے ساتھ ہیں تاکہ وہ موجودہ معاشی چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں اور 13جولائی کی چھوٹے تاجروں کی ہڑتال سے فیڈریشن کا کوئی تعلق نہیں جس کی میں نے شبر زیدی کو فون کرکے بھی وضاحت کی لیکن پورے پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے نمائندے کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں حکومت اور پالیسی میکرز کو زمینی حقائق سے آگاہ کروں کہ ملک میں غیر یقینی سیاسی اور معاشی صورتحال، ایکسچینج ریٹ اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے ایف بی آر کے اقدامات کی وجہ سے پورے ملک میں کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ گزشتہ 40سالوں سے بے انتہا قرضوں، کرپشن اور اسمگلنگ کے باعث پاکستانی معیشت آج زبوں حالی کا شکار ہے لیکن ہمیں فنانشل نظم و ضبط حاصل کرنے کیلئے معیشت کو مرحلہ وار اصلاحات کے ذریعے صحیح کرنا ہوگا۔

تازہ ترین