• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کو آئی سی جے سے ریلیف ملنے کا امکان نہیں، عالمی قانونی ماہر

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) بھارتی جاسوس کلبھوش یادیو کے کیس کے حوالے سے معلومات رکھنے والے انٹرنیشنل قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) سے اس کی خواہش کے مطابق گرفتار جاسوس کلبھوشن یادیو کی بریت، رہائی اور واپسی کے تین بڑے ریلیف ملنے کے امکانات نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار قانونن ماہرین نے دی نیوز سے گفتگو میں کیا۔ دی ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس بدھ 17 جولائی 2019 کو تین بجے پبلک ری ہیئرنگ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن کے کیس میں اپنا فیصلہ سنائے گی۔ یہ کیس لاکھوں افراد کی توجہ کا مرکز ہے۔ کلبھوشن کی پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد سے یہ کیس پاکستان اور بھارت میں وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ اسے پاکستان میں دہشت گردی اور سبوتاژ کے خفیہ مشن کے الزامات میں پکڑا گیا تھا۔ بھارت نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سے کمانڈر جاسوس کلبھوشن کی بریت، رہائی اور واپسی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پاکستان کے وکیل انگلش بیرسٹر خاور قریشی کیو سی نے تحریری اور زبانی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئی سی جے کو بھارت کو کوئی ریلیف نہیں دینا چاہیے۔ آئی سی جے کے کیسز میں نمائندگی کرنے والے ایک قانونی ماہر نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا کہ بیرسٹر خاور قریشی کیو سی نے درست کہا کہ 10 اپریل2017 سے کسی بھی مرحلے پر کمانڈر کلبھوشن یادیو یا اس کی فیملی کے کسی ممبر یا کسی اور پارٹی نے پاکستانی ہائی کورٹس کی حدود پر نظر ثانی کیلئے کوئی استدعا نہیں کی اور نہ ہی اس مقصد کیلئے قونصلر رسائی کے سلسلے میں کوئی درخواست کی گئی۔ بھارت ویانا کنونشن قونصلر ریلیشنز 1963 (1) (b) کے تحت پاکستان کے خلاف کلبھوشن یادیو کا یہ کیس لے کر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس گیا تھا۔ بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ اس نے 25 مارچ 2016 کو کمانڈر کلبھوشن یادیو کے احترام میں فوری قونصلر رسائی فراہم نہ کر کے vccr1963 کی خلاف ورزی کی اور10 اپریل 2017 کو اس کا ملٹری کورٹ پراسس غیر منصفانہ تھا۔18 مئی 2017 کو آئی سی جے نے میرٹ پر کسی فائنڈنگ کے بغیر سٹیٹس کو کیلئے عبوری اقدام جاری کیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے تحریری استدعا اور کیس کے میرٹ کے حوالے سے شواہد فائل کیے گئے۔ 18 سے 21 فروری 2019 تک آئی سی جے میں سماعت ہوئی تھی۔ پاکستان کی نمائندگی خاور قریشی کیو سی اور بھارت کی نمائندگی بھارتی قونصل ہریش سلیو ای اے نے کی۔ بھارت نے استدلال کیا کہ کلبھوشن معصوم بزنس مین ہے، جس کو ایران سے اغوا کر کے پاکستان لایا گیا تھا اور اس پر ٹارچر کر کے اقرار کروایا گیا کہ وہ بھارتی نیوی کا کمانڈر اور انڈین ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے ساتھ کام کرتا ہے۔ بھارت نے استدلال کیا کہ 25 مارچ 2016 کو وہ کمانڈر کلبھوشن کی گرفتاری اور اسے عوام کے سامنے پیش کرنے پر اس تک قونصلر رسائی کا استحقاق رکھتا تھا۔ پاکستان نے بھارت کے تمام دعوئوں کو مسترد کر دیا۔ انٹرنیشنل قانونی ماہر نے دی نیوز کو بتایا کہ پاکستان نے زبردست انداز میں یہ نشان دہی کی کہ جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد اس سے حاصل کیے شواہد کی بنیاد پر اس کو سزا ہوئی، اس کی سرگرمیاں پاکستان میں دہشت گردی اور جاسوسی کی تھیں۔ ماہر نے کہا کہ پاکستان نے یہ موقف اختیار کیا کہ کیا یہ بین الاقوامی قانون کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے کہ کسی کو جاسوس / دہشت گرد کے طور پر ایک ریاست کی جانب سے دوسری ریاست میں بھیجا جائے، جیسا کہ بھارت کا دعوی ہے۔ پاکستان نے 21 مئی 2008 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایکسریس ایگریمنٹ آن قونصلر ایکسیس کی بھی نشاندہی کی، جس کے تحت ہر ریاست نیشنل سیکورٹی سے متعلق کیس پر میرٹ کی بنیاد پر قونصلر رسائی پر غور کیلئے درخواست کر سکتی ہے۔ قانونی ماہر نے کہا کہ بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور نہ اس نے پاکستان کے کیس کی تردید کی ہے کہ بھارت کا مصدقہ بھارتی پاسپورٹ حکام نے فراہم کیا گیا تھا، جس کے کور پر اس کا مسلم نام حسین مبارک پٹیل درج تھا اور یہ اس کے کنڈکٹ اور بھارتی حکومت کے درمیان لنک کو واضح کرتا ہے۔ ماہر نے کہا کہ ایسا کنڈکٹ انٹرنیشنل قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور یہ کورٹ سے کسی بھی قسم کے ریلیف کے دعوے میں رکاوٹ ہونی چاہیے۔ آئی سی جے کی پروسیڈنگؒز کے دوران بھارت نے اس ایشو پر جواب دینے سے انکار کردیا اور اسے غلط پروپیگنڈہ قرار دیا۔ سابق برطانوی چیف امیگریشن آفیسر، جس نے بھارتی حکام کو تربیت دی، نے پاسپورٹ کا ایگزامینیشن کیا۔ پاسپورٹ بھارت سے باہر جانے اور داخل ہونے کیلئے کم از کم 17 بار استعمال کیا گیا۔ مزید براں پاکستان نے نشان دہی کی کہ قونصلر رسائی1963 ویانا کنونشن کے آرٹیکل36 حوالے سے آئی سی جے کے پچھلے فیصلوں میں کورٹ نے یہ واضح کیا کہ یہ کرمنل اپیل نہیں تھی اور موثر ریویو اور سفارشات کی موجودگی میں قونصلر رسائی کے حق کی خلاف ورزی کی صورت میں بھی ڈومیسٹک کورٹس اس کا مناسب حل تھیں۔ برطانوی بیسڈ قانونی ماہر نے تصدیق کی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس طرح کا ریویو فراہم کرتی ہے۔

تازہ ترین