• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت سی تحریریں پڑھتے ہوئے تاثر ملتا ہے کہ شاید لکھنا نہایت آسان کام ہے۔ سچی بات ہے کہ لکھنا ہرگز آسان کام نہیں، اس میں محنت اور تخلیق دونوں درکار ہوتی ہیں ا گر ایک شے کی بھی کمی ہو تو تحریر آمد کی بجائے”آورد“ بن جاتی ہے اور اپنا فطرتی حسن اور کشش کھو بیٹھتی ہے۔ طنز و مزاح قدرے مشکل میدان ہے کیونکہ اگر زور لگا کر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو تحریر”ٹھس“ ہوجاتی ہے اور قاری زور لگانے کے باوجود چند سطروں سے زیادہ پڑھ نہیں سکتا۔ موجودہ دور کے دو بڑے مزاح نگاروں سے میرا قریبی تعلق رہا ہے اگر چہ وہ عمر میں مجھ سے خاصے بڑے تھے اور میری جوانی میں ہی داغ مفارقت دے گئے۔بزرگوں سے دوستی کا یہی ایک بڑا نقصان ہوتا ہے ورنہ تو بزرگوں سے دوستی میں فائدے ہی فائدے ہیں۔ میں نے بے شمار بزرگ دوستوں کے جنازے کندھوں پر اٹھائے اس لئے اب اگر کوئی نوجوان مجھ سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے تو میں اسے ارلی وارننگ(Early warning)دے دیتا ہوں یعنی قبل از وقت انتباہ کردیتا ہوں۔ دو بڑے مزاح نگاروں کی قربت سے مجھے احساس ہوا کہ ان کی شخصیات ،مزاج اور گفتگو بھی اسی طرح شگفتہ تھے جس طرح ان کی تحریر، گویا ان کی تحریوں کی شگفتگی ان کے باطن سے پھوٹتی تھی اور وہ مزاح کی صلاحیت لے کر پیدا ہوئے تھے جس طرح بعض حضرات سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور ساری زندگی اسے چوستے رہتے ہیں۔ میں نے بعض ایسے مزاح نگار بھی دیکھے جن کی شخصیات حفیظ جالندھری مرحوم کے الفاظ میں پیوست مآب تھیں یعنی ان پر پیوست کا غلبہ تھا۔ ایسے لوگ زور لگا کر مزاح پیدا کرتے، ان کی تحریروں میں آمد کی بجائے ”آورد“ کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے چنانچہ انہیں پڑھنے کے لئے بھی زور لگانا پڑتا ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔
میں نے گزشتہ کالم میں اسلام آباد کے حوالے سے بابو نگر کا ذکر کیا تو مجھے ایک ریٹائرڈ بابو جناب حسین احمد شیرازی اپنی کتاب”بابو نگر“ دے گئے جو طنز و مزاح کا حسین امتزاج ہے۔ میں چونکہ خود بھی بابو نگر کا باسی رہا ہوں اس لئے مجھے ان کی تحریر میں طنز و مزاح کی چاشنی ،شگفتگی اور دلآویزی کے ساتھ ساتھ اپنائیت بھی نظر آئی کیونکہ انہوں نے جس انداز سے بابو نگر پر مزاح کا نشتر چلا یا ہے میں خود بھی اس کا عینی شاہد ہوں بلکہ وعدہ معاف گواہ ہوں۔ میں نے آغاز میں ا یسے دو بڑے مزاح نگاروں کا ذکر کیا ہے جن سے میری محبت کا رشتہ بہت گہرا ہے اور جن کی یادوں کی تصویریں میں آج بھی نہاں خانہ دل میں سجائے پھرتا ہوں وہ تھے جناب ضمیر جعفری اور کرنل محمد خاں، سید ضمیر جعفری کی مجلس پھلجڑیوں ا ور زاعفرانی کلیوں کی محفل ہوتی تھی جن کی خوشبو سے قلب و روح مہکتے رہتے تھے۔ ان کے لہجے کی بے ساختہ ظرافت لبوں پر مسلسل مسکراہٹ سجائے رکھتی تھی اور ہم غم دوراں کو بھول کر ان کی شگفتہ گفتگو میں کھو جاتے تھے۔ اس کے برعکس میں نے ایسے مزاح نگار بھی دیکھے ہیں جو بے محل لطیفے سنا کر طبیعت کو مکدر کردیتے ہیں کیونکہ لطیفے کا صرف لطیفہ ہونا ہی کافی نہیں۔ اسے موقع کی نسبت سے مناسب اور انداز کے حوالے سے شگفتہ بھی ہونا چاہئے۔ سید ضمیر جعفری اور کرنل محمد خان کی طویل رفاقت کے حوالے سے مجھے ایک بھی ایسا فقرہ یاد نہیں جو بوجھل گزرا ہو یا جس سے حسن ظرافت مجروح ہوا ہو۔ اسی لئے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اللہ پاک نے میرے کچھ نیک اعمال کے بدلے مجھے جنت میں بھجوانے کا فیصلہ کیا اور خوبصورت حور کی پیشکش کی تو میں اللہ سبحانہ تعالیٰ سے حور کے بدلے سید ضمیر جعفری کی محفل مانگ لوں گا۔ مولوی حضرات فتویٰ لکھنے نہ بیٹھ جائیں ،میں تو”مخول“ کررہا ہوں ورنہ حور کے بغیر جنت کا کیا فائدہ؟ آخر انسان کب تک لذیذ پھلوں ،دودھ اور شہد کی نہروں سے دل بہلا سکتا ہے؟ میراچوائس ہو تو میں دست بستہ عرض کروں کہ اے باری تعالیٰ دودھ پھل اور شہد بے شک رہنے دو بس خور دے دو قبل ا س کے کہ ساری حوریں مولوی حضرات لے جائیں۔میرے محبی سید ضمیر جعفری نے بابو نگر کے مصنف حسین احمد شیرازی کے بارے کیا خوبصورت فقرہ لکھا ہے ”یہ تحریریں شائستہ، ذہین اور بشاش ظرافت کی اس سطح کی نمائندگی کرتی ہیں جس سے کسی قوم کی تہذیبی سطح کا اندازہ ہوتا ہے کہ اسے رواروی میں پڑھو تو کامیڈی معصوم ہوتی ہے اور سوچ کر پڑھو تو ٹریجڈی محسوس ہوتی ہے“۔ شیرازی کی اپنی شخصیت میں بھی شگفتگی پائی جاتی ہے چنانچہ اس نے بشاش ظرافت کے ذریعے ٹریجڈی کو کامیڈی کا رنگ دے دیا ہے۔”تیز و طرار بابو“ کے حوالے سے شیرازی نے لکھا ہے”ایک اجلاس میں ہمارے ساتھ تشریف فرما ساتھی اپنے باس کے بارے میں مسلسل نازیبا گفتگو کرتے ہوئے اس کا سلسلہ نسب شیخ چلی اور ملا نصیرالدین سے ملارہے تھے لیکن جب ان کی گفتگو کی باری آئی تو کہنے لگے”سر! مجھے صرف ایک فقرہ کہنا ہے کہ اگر یہ ا دارہ آپ جیسے عظیم انسان کی رہنمائی میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتا تو پھر تقدیر بھی ہمارے لئے کچھ نہیں کرسکتی“ دیکھ لیں ان فقروں کو رواروی میں پڑھیں تو کامیڈی معصوم ہوتی ہے سوچ کر پڑھیں تو ٹریجڈی محسوس ہوتی ہے۔
شیرازی دیکھنے میں اکہرے بدن کا سنگل ہڈی اور بے وزن انسان لگتا ہے۔ ایسے جسموں کا بوجھ نہ زمین محسوس کرتی ہے اور نہ انہیں اٹھانے والے کندھے، چنانچہ شیرازی لکھتا ہے”ایک دفعہ کسی نے ان کے چھریرے بدن اور لاغری پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا کچھ تو وزن ہونا چاہئے تاکہ آخری سفر پر یہ پتہ تو چلے کہ کاندھے پر کوئی آدم زاد اٹھایا ہوا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو ٹھیک ہے لیکن اتنا بھی بوجھ نہیں ہونا چاہئے کہ کندھا دینے والے کلمہ شہادت کی بجائے اذیت کا رونا روتے جائیں کہ اس گدھے جیسی لاش کو اٹھانا ان کے کن گناہوں کا عذاب ہے“۔ بہرحال پہلوان نما بھاری بھرکم دوست پریشان نہ ہو اور خوب کھائیں پئیں کیونکہ بقول شعیب بن عزیز
اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں
کتاب نگر کی سیر کے دوران مجھے طارق محمود میاں کی کتاب”ساڑھے چھ فٹ لمبی اداسی“ نظر آئی، اگر اس کتاب کا نام چھ فٹ لمبی اداسی ہوتا تو میں اسے اپنی کہانی سمجھتا کیونکہ میرا قد بھی تقریباً چھ فٹ ہی ہے۔ انعام یافتہ کالم نگار کی تحریر پڑھی تو مجھے اس کی شگفتگی اور سنجیدگی کا امتزاج اچھا لگا، سیاسی کالم بعض اوقات تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے طارق میاں کا کالم”ایک تھے ابا جی……“ تاریخ کا حصہ لگا کیونکہ اس کالم میں جلا وطنی کے دور میں میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مرحوم عباس شریف کی ابا جی کی خدمت میں حاضری کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اباجی کے الفاظ زندگی کی سخت گیری کا فلسفہ یوں بیان کرتے ہیں”پانی جتنا گرم ہوتا ہے اس کا ذائقہ اتنا ہی بہتر ہوتا ہے، یاد رکھو زندگی کی گرمی اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے جتنی میں نے اتفاق فونڈری میں دیکھی اور سہی ہے۔جب مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو اس سے زندگی کو جلا ملتی ہے……بات ختم ہوئی تو تینوں بھائی اباجی کے کھردرے ہاتھوں کو بوسہ دے کر کمرے سے باہر نکل گئے۔اس وقت ان کی گردنیں تنی تھیں…“ اب گردنوں کا کیا حال ہے؟ مجھے کیا معلوم، چودھری شجاعت حسین جانتے ہیں یا پھر منظور وٹو…!!
کتاب نگر کی ورق گردانی کے دوران مجھے آصف بھلی کی کتاب ”میرے قائد کا نظریہ“ بھی اچھی لگی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میرا اور ان کا قائد ایک ہی ہے اور جذبوں کی سچائی بھی مشترک ہے۔ آصف بھلی کا خلوص ، گہرا مطالعہ، انداز بیان اور نظریاتی کمٹمنٹ متاثر کرتی ہے اور بعض ایسے شعبے بھی سامنے آتے ہیں جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں مثلاً”کوئی قادیانی مسلم لیگ کا رکن نہیں بن سکتا“ پاکستانیات کے حوالے سے مجھے علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی یاد آتے ہیں جنہوں نے 1928ء میں ہفت روزہ”پاکستان “ کے اجراء کے لئے ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کے دفتر میں درخواست دی تھی لیکن ڈیکلریشن کہیں 1938ء میں ملا ،چنانچہ پہلا شمارہ یکم مئی1938ء کو شائع ہوا۔وارث امام کاظمی نے ان کے نام مولانا غلام رسول مہر کے خطوط”نقوش مہر“ بھجوائی جو تاریخ کا حصہ ہے اور ہاں سیکولرازم آج بھی تازہ موضوع اور روزمرہ بحث کا حصہ ہے۔ سچی بات ہے کہ اس موضوع پر طارق جان کی کتاب ”سیکولر ازم ،مباحث اور مغالطے“ سے بہتر کتاب کم از کم میری نظر سے نہیں گزری۔ مصنف نے تحقیق، وسیع مطالعے اور محنت کا حق ادا کردیا ہے۔ ابھی کتاب نگر کی سیر ادھوری ہے انشاء اللہ پھر کبھی سہی…میرے ساتھ رہو گے تو اسی طرح عیش کروگے۔
تازہ ترین