پشاور(ارشد عزیز ملک )خیبرپختو نخوا کے سرکاری افسروں کو سیاسی مداخلت اور مضبوط مافیا نے مستعفی ہونے یا کھیل کا حصہ بننےپر مجبور کردیا ہے ۔حال ہی میں ایک سینئر بیوروکریٹ نے اپنے محکمے کے وزیر کے حوالے سے اپنے سیکرٹری کو خط لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ محکمے میں دہرا معیار اور مداخلت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب کوئی استعفی دے یا اس کھیل کا حصہ بن جائے ۔ان حالات میں کون کام کرسکتا ہے ۔کون ان چالوں کوکب تک برداشت کرسکتا ہے ۔ کہاں ہے اللہ کا خوف ٗحب الوطنی اور ضمیر کی پکار ۔میں سمجھتا ہوں کہ ہم مزید چوری وسینہ زوری کو برداشت نہیں کرسکتے ۔مذکورہ افسر کو عہدے سے ہٹا کر افسر بکار خاص بنا دیا گیا ۔یادرہے کہ صوبائی وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی نے صوبائی کابینہ کے 26 مئی 2019 کے اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل معدنیات کے CONDUCTکے حوالے سے شکایت کی تھی ۔صوبائی کابینہ نے 28 مئی کو محکمہ سٹیبلشمنٹ اور معدنیات کوخط نمبر SOC (E&D) 9-16/2019 کے ذریعے ڈی جی معدنیات کو فوری طورپر معطل کرکے انکوائری کا حکم دیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا البتہ انھیں تبدیل کرکے او ایس ڈی بنا دیا گیا جبکہ 8 جولائی کو سیکرٹری معدنیات عصمت اللہ کو بھی تبدیل کردیا گیا ۔محکمہ معدنیا ت خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر جنرل منتظر خان نے اپنے سیکرٹری معدنیات کو 19 جون 2019 کو خط نمبر 1596 PA/DGMM/General/2019 لکھا جس کی کاپی جنگ کے پاس موجود ہے ۔گریڈ 19 کے افسر منتظر خان نے تصدیق کرتے ہوئے جنگ کو بتایا کہ انھوں نے سیاسی مداخلت کے حوالے سے ایک خط اپنے سیکرٹری کو لکھا تھا لیکن سول سرونٹ ہونے کے باعث میڈیا سے گفتگو نہیں کرسکتے البتہ انھوں نے کہا کہ 8 ماہ کے دور میں محکمے معدنیات کی کارکردگی شاندار رہی ۔محکمے کی آمدن میں 147فیصد اضافہ ہوا اور 900نئی لیز ز دی گئیں ۔صوبائی وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی نےتمام الزامات مسترد کرتے ہوئے انھیں بے بنیاد قرارد یا ۔انھوں نے کہا کہ ڈی جی کو ناقص کارکردگی اور کنڈکٹ پر صوبائی کابینہ نے تبدیل کیا ہے ۔میں نے کئ مربتہ ڈی جی کو غیر قانونی کان کنی روکنے کے لئے خطوط لکھے لیکن صوبے میں غیر قانونی کان کنی جاری رہی ۔ڈاکٹر امجد نے محکمے میں سیاسی مداخلت اور دبائو کے الزامات کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ محکمے کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی البتہ کارکردگی بہتر بنانے پر زور دیا ہے جو میر ی ذمہ داری ہے لیکن کارکردگی بہتر نہ ہوسکی۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے کبھی تقرریوں و تبادلوں کے حوالے سے دبائو نہیں ڈالا۔ ڈی جی نے خود ہی 72 افراد کو تبدیل کیا اور پھر بعض افراد کو خوش کرنے کے لئے چار کا تبادلہ منسوخ کردیا حالانکہ میں نےکسی بھی اہلکار کے تبادلے کو منسوخ نہ کرنے کے واضح احکامات جاری کئے تھے۔