• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب ”A personal memoir“، جو چند سال پہلے شائع ہوئی ، میں لکھتے ہیں ”میں نے اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرتے ہوئے منطق اور استدلال کے بجائے جوش اور ولولے کو ملحوظ ِ خاطر رکھا ہے“۔ عمران کو ساٹھ کی دہائی میں کرکٹ کا جوجنون ہوا اُس نے اُسے اسّی کی دہائی میں کھیل کود کی دنیا میں عظمت و شہرت حاصل کرنے کے قابل بنا دیا۔ وہ آج سے تقریباً بیس سال پہلے سیاست کے میدان میں داخل ہوئے تاہم قومی سیاسی افق پر اُن کی شہرت کے نقوش اب ابھرنے شروع ہوئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست میں کامیابی کو برقرار رکھنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ انتخابی سیاست کا میدان ایک ایسے ملک میں جو بہت سے مسائل کا شکار ہو، بہت کٹھن چیلنج پیش کرتا ہے۔اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران عمران خاصے بالغ نظر دکھائی دیئے۔ انہوں نے کھلے دل سے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ ملک میں انقلابی تبدیلی کا آنا ایک دل خوش کن خیال تو ہے لیکن اسے حقیقت کا جامہ پہنانا دشوار ہے۔ خاں صاحب کی حقیقت پسندی ایک اچھی خبر ہے کیونکہ پاکستانی قوم کو مزید دھوکے باز اورجھوٹے موروثی سیاستدانوں کی ضرورت نہیں ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب عمران نے بہت سے لبرل نظریات رکھنے والے افراد کو ”فاشسٹ “ اور ”اخلاق باختہ“ قرار دیتے ہوئے مشتعل کردیا تھا۔ اس سے پہلے لبرل افراد بھی عمران خان کو طنزیہ طور پر ”طالبان خان “ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ خاں صاحب ایک تو تحریک ِ طالبان پاکستان کے خلاف فوجی ایکشن کے حق میں نہیں، دوسرے وہ ان کو سرے سے ہی دہشت گرد تسلیم نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی اُن کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنا بے سود ہے لیکن عمران اس بات پر مُصر ہیں کہ ان کے ساتھ طاقت کے استعمال کے بجائے بات چیت کی راہ اختیار کی جائے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذاتی طور پر اپنے لئے ایک کھڑکی کھلی رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر کبھی پی ٹی آئی اقتدار میں آئے تو وہ طالبان کو نرم خو بنا سکے تاہم اب عمران کو احساس ہوگیا ہے کہ وہ لبرل اور آزاد خیال افراد سے خود کو دور رکھتے ہوئے شخصی آزادیوں کی امین اور ترقی پسند نظریات پر مبنی ایک جدید جمہوری ریاست کی تعمیر نہیں کرسکتے۔ عمران خان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اسلام کو جس طرح استعمال کیا اُس کے ریاست اور معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوئے، اس لئے وہ آئین کے آرٹیکلز62/اور63 جو صرف ”نیک ، متقی اور صالح“ افراد کو ہی انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت دیتے ہیں، کی بہت زیادہ وکالت نہیں کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ بدعنوانی کے سوا الیکشن کمیشن کو امیدوار کی ذاتی زندگی کا کھوج نہیں لگانا چاہئے۔ یہ بلاشبہ ایک ”لبرل اور حقیقت پسند“ نقطہٴ نظر ہے کیونکہ ان آرٹیکلز کے منفی استعمال سے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی ”کردار کشی“ کی جا سکتی ہے۔ عمران اُن مبہم قوانین جو کسی شخص کی نظریہٴ پاکستان کے حوالے سے جانچ کرتے ہیں، کے بارے میں بھی بہت محتاط ہیں۔ اس ضمن میں اُن کا کہنا ہے”ہر شخص ریاست، اس کے افعال اور اس کی تعمیر کے بارے میں اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہے“۔ یہ نقطہٴ نظرآزادی ِ اظہار اور لبرل نظریات سے ہم آہنگ ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران جمہوریت ، جس کو قیام ِ پاکستان سے ہی ہم نے گھر کی لونڈی بنا لیا، کے پُرزور حامی ہیں اور اس وقت جب کہ ملک میں انتخابات کو التوا میں ڈالنے اور ”ماہرین “ پر مبنی نگران حکومت کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں، عمران ان سازشوں کی واشگاف الفاظ میں مخالفت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران، اگرچہ عوامی جذبات کے دھارے میں بہہ جاتے ہیں، نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے، جس کی وجہ سے جمہوری عمل عدم استحکام کا شکار ہو جاتا اور غیر جمہوری قوتوں کو اپنی مرضی کا نظام لانے کا موقع مل سکتا تھا، میں شمولیت کرنے سے انکار کر دیا۔
عمران بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بارے میں حقیقت پسندانہ خیالا ت رکھتے ہیں اور تعلقات کی بہتری کے لئے مسلہٴ کشمیر کے حل کی پیشگی شرط نہیں لگاتے ہیں۔ اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے لیکن اپنی آزادی اور خود مختاری کا سودا نہ کرے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ افغان جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان کو اپنے قومی مفاد کا خیال رکھنا چاہئے۔ یہ حقیقت پسندانہ اور منطقی نظریات ہیں اور انہیں کسی طور بھی ”امریکہ مخالف “ نہیں کہا جا سکتا۔ عمران خان کے معیشت کے بارے میں تصورات بھی تبدیلی کے عمل سے گزررہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پر انحصار کم کرتے ہوئے خود انحصاری کی طرف بڑھنا چاہئے۔ اس کے لئے وہ ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ گویا وہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے حامی ہیں (کچھ عرصہ پہلے جب زرداری حکومت نے اس ٹیکس کے نفاذ کی کوشش کی تھی تو پی ٹی آئی نے اس کی مخالفت کی تھی)۔ عمران اس نظام میں بہتری کے خواہشمند ہیں تاکہ ٹیکس انسپکٹروں کے ہاتھوں ہونے والی بدعنوانی کی روک تھام کی جا سکے۔ ان معاملات میں تو عمران بہت واضح اور دوٹوک ہیں لیکن کچھ معاملات میں ابہام پایا جاتا ہے۔ عمران زمین کے بارے میں بھارت اور چین کی طرز پر اصلاحات لانے، جو جاگیرداری نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرسکیں، کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ خود بھی ایک جاگیردار ہیں… اگرچہ خود کاشت کاری نہیں کرتے ہیں…چنانچہ اس حوالے سے ایک تضاد نظر آتا ہے کیونکہ ان کی جماعت کی پالیسی ساز کمیٹی میں بہت بڑے بڑے جاگیردار شامل ہیں۔ اسی طرح ایک تضاداور نظر آتا ہے جب عمران کا کہنا ہے کہ وہ زرعی ٹیکس کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اس کا موقع آئے گا تو کیا وہ اپنی پارٹی کے جاگیرداروں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لے سکیں گے یا نہیں۔ کچھ اور معاملات میں اسی طرح کے تضادات پائے جاتے ہیں۔ عمران ٹیکس کے نظام کو بڑھانا چاہتے ہیں لیکن وہ رٹیل ٹیکس کی شرح بڑھانے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ عوام کو فراہم کی جانی والی اہم اشیاء کی امدادی قیمت کے حق میں نہیں ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اقتدار میں آگئی تو کیا وہ امدادی قیمت دینے کا سلسلہ ختم کر سکے گی؟وہ سرکاری اداروں کو نجی تحویل میں دینے کی بھی مخالفت کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ چاہتے ہیں کہ وسیع وعریض پی ایم ہاؤس اور گورنر ہاؤسوں کو تعلیمی اداروں اور عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہ سیاسی نعرے دکھائی دیتے ہیں اور ان کا مقصد اپنے سیاسی مخالفین کو تنگ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا وہ خود یہ کام کر سکیں گے؟
اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ تمام بیوروکریسی، جج حضرات، فوجی افسران اور وزرائے اعلیٰ کے دفاتر کو بھی اسکولوں میں تبدیل کردیا جائے لیکن وہ ان پر تنقید نہیں کرتے ہیں۔ وہ جہادی اور انتہا پسند عناصر کے خلاف ہیں لیکن وہ ان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ عمران کی یہ منطق بہت بودی ہے کہ اگر ان عناصر کے ساتھ بات چیت کی جائے تو ان کے نظریات کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح وہ طاقتور دفاعی اداروں ، جو ان عناصر کی خفیہ طور پر پشت پناہی کرتے ہیں، پر بھی براہ ِ راست تنقید کرنے میں بہت محتاط ہیں۔ بہرحال عمران تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں اور یہ اس ملک، جو انتخابات کی طرف جارہا ہے اور اس کے لوگ، جو تبدیلی کی راہ دیکھ رہے ہیں، کے لئے بہت اچھا ہے۔ اگر وہ اقتدار میں نہ بھی آسکے تو بھی پارلیمینٹ میں رہتے ہوئے عوامی مفاد کا تحفظ کرسکیں گے۔
تازہ ترین