• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں بھی کروڑوں پاکستانیوں کی طرح ہر میچ پہلی بال سے لے کر آخری شاٹ تک دیکھتا ہوں۔ ہر میچ میں پاکستان کی فتح کی دعا مانگتا ہوں۔ شکرانے کے نفل مانتا ہوں۔ ہر پاکستانی بیٹسمین کو ہر گیند پر چھکا مارتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہرے رنگ کی شرٹ پہنے ہر پاکستانی بولر کو ہر گیند پر وکٹ لیتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میری بھی تمام پاکستانی شائقین کی طرح خواہش ہوتی ہے کہ پاکستانی ٹیم ہر میچ میںفتح سے ہمکنار ہو۔ ہر ٹرافی ہمارا مقدر بنے۔ ہر ٹورنامنٹ پاکستان جیتے۔ہر فارمیٹ کی کرکٹ میں بس ہمارا ہی نام ہو۔ ہر انعامی تقریب میں پاکستان کا ترانہ بجے۔ سبز پرچم سر بلند ہو۔
میں کبھی بھی شاہد آفریدی کی کرکٹ کا فین نہیں رہا ۔ بے تکے شاٹ کھیل کر آوٹ ہو جانا ۔ بولنگ کبھی اچھی کبھی بری کرنا۔ ٹیم پر آنے والے نازک وقت میںایک اونچا کیچ پکڑا کر پویلین کو لوٹ جانا ۔ ٹیم میں اپنی من مانی کرنا۔جب دھیان سے کھیلنے کی ضرورت ہو اس وقت چھکےمارنا۔ ٹیم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ جانا۔ سلیکشن میںذاتی پسند ناپسند کو ترجیح دینا مجھے پسند نہیں ہے۔ بیس سال گزر گئے شاہد آفریدی کی کرکٹ ایسی ہے۔ سری لنکا کے خلاف دنیا کی تیز رفتار سنچری کرنے سے لے کر آج تک شاہد آفریدی کی کرکٹ ذرا نہیں بدلی۔مجھے شاہد آفریدی کی کرکٹ سے اختلاف ہے۔لیکن اسکے باوجود میں مانتا ہوں دنیا بھر میں شاہد آفریدی کے کروڑوں فین موجود ہیں۔ پاکستان میں بھی شاہد آفریدی کے مداحوں کی کمی نہیں۔اب بھی آفریدی جب میدان میں بیٹ پکڑ کر آتا ہے لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھم جاتی ہے۔ دنیا کے ہر میدان میں کچھ بڑا ہونے کا انتظار ہونے لگتا ہے۔ دنیا بھر کی کرکٹ میں شاہد آفریدی سے بڑا سلیبریٹی کوئی نہیں ہے۔اسکو چاہنے والے ہر ملک کے ہر گوشے میں ہیں۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ میدان میں نعروں کی گونج آفریدی کے آنے سے ہی بلند ہوتی ہے۔ تالیوں کی تھاپ آفریدی کے شاٹ سے ہی بڑھتی ہے۔ شائقین کا رقص مستانہ آفریدی کے چھکے سے تقویت پاتا ہے۔ کرکٹ کے دیوانے آفریدی کو ہی چاہتے ہیں۔
اب جو آفریدی کے بھارت میں دئیے گئے بیان پر لے دے ہو رہی ہے اس پر سوائے تاسف کے کیا کیا جاسکتا ہے۔ آفریدی نے کوئی ملک سے غداری نہیں کی۔ کوئی وطن کی ناموس کو بٹا نہیں لگایا۔ کوئی اربوں کا غبن نہیں کیا۔ کوئی دہشت گرد حملہ نہیں کیا ۔ صرف ایک بیان دیا ہے۔ مہمان نوازی کی تعریف کی ہے۔ شکریہ ادا کیا ہے۔تشکر کے کلمات کہے ہیں۔ اس کے سوا اس بیان میں کچھ نہیں ہے۔لیکن جو حال ہم نے اس بیان کا کیا ہے وہ قابل افسوس ہے ۔ مریضانہ ذہنیت ہے۔ شر انگیزی ہے۔ توہین ہے ۔ ایک ہیرو کی تذلیل ہے۔
ہمیں دھیان میں رکھنا ہو گا کہ شاہد آفریدی کوئی سفارت کار تو ہیں نہیں جو الفاظ کے چنائو میں لاجواب مہارت رکھتے ہوں ناپ تول کر بیان دیتے ہوں۔ وہ تو جذبات میںرپورٹر کے سوال کو بھی گھٹیا کہہ دیتے ہیں ۔ ذرا ایک لمحے کو سوچئے کہ جو کپتان ملک کی نمائندگی کرنے دنیا کے اتنے بڑے ٹورنامنٹ میںگیا ہو ا ، مقابلے کے لئے تیار ہو تو جب اسکو اپنے ہی ملک میں لعنتوں کا سامنا ہو تو اس کا مورال کیا رہ جائے گا۔ دنیا کی ٹیموں سے لڑنے کا حوصلہ ختم ہو جائے گا۔ اس کے پاس اس طوفان بدتمیزی کے بعد یاتو معذرت کے الفاظ ہوں گے یا پھر خرابی صحت کا بہانہ ہوگا۔
ہم آفریدی کی کرکٹ پر اعتراض کر سکتے ہیں ۔کھیلنے کے انداز پر بات کر سکتے ہیں۔ بہتر کارکردگی میں تسلسل کی خواہش اور دعا کر سکتے ہیں مگر اپنے قومی ہیرو پر لعنت نہیں بھیج سکتے ۔ جس شخص نے بیس سال سبز شرٹ پہن کر کرکٹ میں دنیا کے ہر ملک میں پاکستان کی نمائندگی کی ہو اسکو ایک بیان کے نتیجے میں غدار نہیں کہہ سکتے۔ اسکی تمام خدمات کو بھول کر اس کو وطن دشمن نہیں قرار دے سکتے۔اس ردعمل میں جو شدت ہے وہ ہماری سوچ کی عکاس ہے۔ یہی انتہا پسند رویئے ہمیں نامقبول کرتے ہیں۔ ہماری برائیوں کی جڑ بنتے ہیں۔ ہمیں تنہا کرتے ہیں۔
بچپن سے ٹی وی پر دیکھتے آئے ہیں ہر سال بھارت سے سکھ یاتری پاکستان آتے ہیں۔ مذہبی تقاریب کے اختتام پر انکے انٹرویو چلتے ہیں۔ سب ہی مہمان نوازی کاشکریہ ادا کرتے ہیں۔ سب ہی کہتے ہیں پاکستان میں بہت خیال رکھا گیا۔ اس ملک نے بہت پیار دیا۔ بہت عزت دی۔ ہر طرح سے ہمارا خیا ل رکھا گیا۔ اس بات پر کوئی ان پر لعنت نہیں بھیجتا۔ کوئی انکو غدار نہیں کہتا۔ انکے ملک کی تو ناک اس بیان سے نیچے نہیں ہوتی تو پھر ہماری ہی ناک اتنی حساس کیوں ہے؟
بھارت سے عالمی شہرت کے فنکار پاکستان آتے ہیں۔ گلوکار تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ نامور اداکار تشریف لاتے ہیں۔ ہم کھلے دل سے انکا استقبال کرتے ہیں۔ بھرپور مہمان نوازی کرتے ہیں۔ انکی ایک جھلک کو ترستے ہیں ۔ انکے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔ جب یہ فنکار رخصت ہوتے ہیں تو مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔اخلاقی طور پر کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہمیں بہت پیار ملا۔ بہت عزت ملی۔گھر سا ماحول ملا۔ ان پر تو لعنتیں نہیں بھیجی جاتیں۔ ان پر تو ملک کے نام پر بٹہ لگانے کا الزام نہیں لگتا۔
عجیب قوم ہیں ہم بھی۔ ایک کھلاڑی کے ایک بیان سے ہماری عزت پامال ہوگئی۔اتنی نازک ہے ہماری عزت؟اتنی سستی ہے ہماری غیرت؟ پورے ملک میں اس ایک بیان پر جس شدت سے غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اس سے ظاہر ہے کہ ہمیں اپنے غصے کے اظہار کے نہ مقام کا پتہ نہ موقع کا۔ اگر یہی شدت ہم دکھائیں دہشت گردی کے خلاف تو کیا دہشت گردی ختم نہ ہو جائے ۔ اگر یہی شدت دکھائیںہم کرپشن کرنے والوں کے خلاف تو کیا کرپشن کے عفریت سے نجات نہ مل جائے۔ اگر اس اتحاد کا مظاہرہ کریں انصاف کے حصول کے لئے تو کیا انصاف سب کا مقدر نہ ہو جائے۔ یہی شدت دکھائیں جہالت کے خلاف تو کیا سارا ملک تعلیم یافتہ نہ ہوجائے۔یہی غصہ دکھائیں غربت کے خلاف تو کیا اس ملک سے غربت ختم نہ ہو جائے۔ دہشت گردی، کرپشن، بے انصافی، جہالت اور غربت وہ چیزیں ہیں جن پر لعنت بھیجنے کی ضرورت ہے ۔ جن پر غصے کا اظہار واجب ہے ۔ جن کے خلاف جنگ ضروری ہے۔ جن سے نجات لازمی ہے۔لیکن اس طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا۔ہمارے لئے مسئلہ صرف آفریدی کا بیان ہے۔ بھارت کی مہمان نوازی کی توصیف ہے۔
منافقت کی انتہایہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کے اس ہیرو کے خلاف پوری شدومد سے ہرزہ سرائی میں بہت مصروف ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو گھر جاتے ہیں تو انڈین چینل پر ڈرامہ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ گاڑیوں میں بھارتی گلوکاروں کی موسیقی پر سر دھنتے ہیں۔ گھر والوں کے ساتھ پہلی فرصت میں سنیما پر انڈین فلم دیکھنے جاتے ہیں۔ اور اس سب میںکوئی حرج نہیں ہے۔ فنکار کے فن کی داد دینا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اداکار کے فن کی توصیف کرنا کوئی غداری نہیں ۔ لیکن جب یہی لوگ عوام سے مخاطب ہوتے ہیں تو انکی غیرت اچانک بیدار ہوتی ہے ۔ قومی حمیت کا جوش ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ اس جذباتی قوم کے سامنے سستے جذبات بیچنا آسان ہے۔ اچانک کسی کی توہین کر کے حب الوطنی کا نعرہ لگانا سہل ہے۔لوگوں کو جوشیلے ڈائیلاگ سے مرعوب اور مغلوب کرنا آسان ہے۔ تکریم اور تعظیم کرنا دشوار کام ہے۔
تازہ ترین