• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’جب آپ ٹاس کرتے ہیں تو آپ کو ہیڈ لینا ہوتا ہے یا ٹیل۔ یہ ناممکن ہے کہ ہیڈ بھی آپ کا ہو اور ٹیل بھی۔‘‘ یہ جملہ میں نے محمد حیدر کی کتاب "A memoir of the struggle for Hyderabad"سے لیا ہے جو پچاس کی دہائی میں دہلی میں چھپی تھی۔ محمد حیدر برطانوی ہند کی ریاست حیدرآباد دکن کی سول سروس میں تھے جو مقامی ریاستوں میں سب سے بڑی اور امیر کبیر ریاست تھی جس کی اکثریتی آبادی ہندو اور حکمراں مسلمان تھے جنہیں نظام کہا جاتا تھا اور تقسیم ہند کے وقت ساتویں نظام میر عثمان علی خان سریر آرائے تخت تھے۔ تقسیم ہند ایکٹ میں دیسی ریاستوں کے بارے میں طے پایا تھا کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں گی اور فارمولہ یہ تھا کہ مسلم اکثریت کی ریاستیں پاکستان کے ساتھ جائیں گی اور ہندو اکثریت والوں کا الحاق بھارت کے ساتھ ہو گا مگر نظام میر عثمان علی خان مسلمان ہونے کے ناتے بھارت کی بجائے پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے تھے جس کا انہوں نے اعلان بھی کر دیا اور بھارتی تیور دیکھ کر اپنا کیس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی لے گئے تھے۔ نتیجتاً ایک خوفناک قسم کے فوجی ایکشن کے ذریعے ریاست پر قبضہ جما لیا گیا۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے جسے پولیس کارروائی کا نام دیا گیا تھا، یوں 17؍ستمبر 1948ء کو حیدرآباد دکن کی ریاست سرکاری طور پر بھارت میں ضم ہو گئی۔ اگست 1947ء سے ستمبر 1948ء کے ان 13؍مہینوں میں یہ ریاست کس عذاب سے گزری، اس کا تذکرہ محمد حیدر نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے۔ موصوف حیدرآباد دکن کے ضلع عثمان آباد کے کلکٹر تھے اور نظام کے ساتھ وفاداری کے الزام میں بھارت نے انہیں جیل میں ڈال دیا تھا۔ انہوں نے حیدرآباد دکن کے کیس کا موازنہ جموں و کشمیر سے کیا ہے۔ ان کے بہ قول دونوں ریاستوں کے معاملے میں بیک وقت یکسانیت بھی تھی اور تضاد بھی۔ حیدرآباد کی اکثریتی آبادی ہندو اور حکمران مسلمان جبکہ جموں و کشمیر کی اکثریتی آبادی مسلمان اور حکمران ہندو۔ دونوں حکمرانوں نے اپنی رعیت کی خواہش کے منافی فیصلہ کیا۔ دونوں اپنا کیس اقوام متحدہ میں بھی لے گئے مگر بھارت نے طاقت کے بل بوتے پر دونوں جگہوں پر من مرضی کی اور محمد حیدر کے بہ قول یوں ہیڈ بھی لے لیا اور ٹیل بھی۔ سدھ بھی اس کی اور پٹھ بھی اس کی۔ جس فارمولے کے تحت حیدرآباد دکن بھارت کا بنتا تھا عین اسی کے مطابق کشمیر پر پاکستان کا حق فائق تھا مگر بھارت نے ہٹ دھرمی اور بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر بھی قبضہ جما لیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کشمیری سات دہائیوں سے ایک نہ ختم ہونے والے عذاب میں مبتلا ہیں۔
کشمیر فی الحقیقت تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے جسے سلامتی کونسل میں خود بھارت لے کر گیا اور ریاست کے لئے حق خود اختیاری کا وعدہ کیا کہ حالات بہتر ہوتے ہی رائے شماری کرا دی جائے گی مگر تین نسلیں کھپ گئیں، ایسا کچھ نہیں ہو پایا۔ اس حوالے سے پاکستان کا مؤقف اصولی اور مبنی بر انصاف ہے کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ووٹ کے ذریعے ہو۔ مگر بدقسمتی سے 68؍برس ہو گئے اور وہ شبھ گھڑی نہیں آئی اور اب عالم یہ ہے کہ بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں کا نام سننے کا بھی روادار نہیں اور سات لاکھ فوج کی مدد سے ریاست پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ وہ اپنی دانست میں معاملہ ختم کر چکا اور گاہے بگاہے ہونے والے انتخابات کو استصواب رائے کا نعم البدل قرار دیتا ہے مگر کشمیری اس جھانسے میں آنے کو تیار نہیں اور اپنے خون سے حریت کی بے مثل داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی ان کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کرتا آیا ہے۔ کبھی دوطرفہ ڈائیلاگ کی بات کی تو کبھی تھرڈ پارٹی ثالثی کو بیچ میں لے آئے۔ 1962-63میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مابین مذاکرات کے چھ رائونڈ ہوئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور سردار سورن سنگھ کے درمیان ہونے والی اس معرکہ آرائی نے بہت شہرت پائی تھی۔ وہ چین، بھارت جنگ کے بعد کا زمانہ تھا۔ گو بھارت صدمے کی کیفیت سے دوچار تھا اور مذاکرات کی حوصلہ افزائی امریکہ اور برطانیہ نے بھی کی تھی مگر اس نشست و برخاست سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا تھا۔ 1965 اور 1971کی جنگوں کے بعد معاملہ مزید گمبھیر ہوگیا۔ نئے نئے ایشوز سامنے آتے گئے اور کشمیر پس منظر میں چلا گیا۔ تاشقند اور شملہ کے معاہدوں کی توجیہات نے بھی کشمیر کے منظرنامے کو مزید دھندلا دیا۔
مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے اس وقت آیا جب 1989-90میں مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد کی ایک نئی لہر شروع ہوئی اور کشمیری مسلمان قابض بھارتی فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ یوں پاکستان کی خارجہ حکمت عملی میں یہ مسئلہ پھر سے نمایاں ہو گیا۔ انسانی حقوق کی پامالی، کشمیریوں کے جذبہ حریت اور قابض بھارتی سپاہ کے مظالم کی خونچکاں داستانوں کی صدائے بازگشت عالمی فورمز پر سنائی دی جانے لگی اور پاکستانی سفارت کار بھارت کے اس سفاکانہ طرزعمل کو ریاستی دہشت گردی کے طور پر پیش کرتے دکھائی دیتے تھے اور یوں اسلام آباد، کشمیر کو عالمی فوکس میں لانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گیا۔ اس دوران دونوں ملکوں نے جوہری صلاحیت حاصل کر لی تو کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری کی تشویش میں یکایک اضافہ ہو گیا۔ کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ کے طور پر پہچانا جانے لگا اور امریکی صدر بل کلنٹن نے کشمیر کو کرۂ ارض کی خطرناک ترین جگہ قرار دیا تھا مگر یہ ٹیمپو زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا اور یہ امر واقعہ ہے کہ 9/11کے سانحہ نے کشمیر کاز کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ امریکہ کی سربراہی میں پوری دنیا نے دہشت کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو گویا بلّی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا۔ بھارت نے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیا اور دنیا کو یقین دلانے میں کسی حد تک کامیاب رہا کہ کشمیر میں جاری جدوجہد دہشت گردی کا شاخسانہ ہے جس کی پشت پناہی پاکستان کر رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان نے جدوجہد آزادی اور دہشت گردی میں تمیز کرنے کی بات کی اور اپنے اس مؤقف کو بڑھاوا دیا کہ آزادی کیلئے کشمیریوں کی جدوجہد ان کا بنیادی حق ہے۔ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے ہونا ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادیں اس کی گواہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں نا کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے خلاف آوازیں بھارت کے اندر سے بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور حق کا علم بلند کرنے والے یہ کشمیری ہیں نہ مسلمان اور نہ ہی بے سواد جاہل۔ 22؍فروری کو دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر مینن نے اپنے ایک لیکچر میں دہائی دی تھی کہ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ غیر قانونی اور بلاجواز ہے اور اس حقیقت کو پوری دنیا جانتی ہے، ایسے میں وادی سے اٹھنے والے آزادی کے نعروں پر سیخ پا ہونا بے معنی ہے۔ پروفیسر مینن نے ان خیالات کا اظہار اپنی یونیورسٹی سے نکالے گئے ان طلبا کی حمایت میں کیا تھا جنہیں آزادیٔ کشمیر کے حق میں نعرے لگانے پر گرفتار کیا گیا اور ان پر غداری کا مقدمہ بنا۔ پاکستان گزشتہ 68؍برس سے بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا ذکر تسلسل کے ساتھ کرتا آیا ہے اور حتی الامکان مسئلے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان، امریکہ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے موقع پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کشمیر کا تذکرہ اس حوالے سے اسلام آباد کی حالیہ کامیابی ہے۔ مذکورہ اعلامیہ میں فریقین نے پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر سمیت جملہ مسائل کے پرامن حل کیلئے بامعنی مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا ہے اور ہمارا فارن آفس اس کامیابی پر بجا طور پر نازاں ہے۔
تازہ ترین