• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورلڈکپ کیلئے پلاننگ کی جائے، کپتان اور کوچز کو مناسب وقت ملنا چاہئے، وقار یونس

لندن (عبدالماجد بھٹی/ نمائندہ خصوصی) ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی خراب کارکردگی کے بعد ایک بار پھر تبدیلی کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ نئے کوچنگ اسٹاف اور کپتان کی تبدیلی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ماضی کے عظم فاسٹ بولر اور دو بار پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ رہنے والے وقار یونس کہتے ہیں کہ ہر چار سال بعد یہی کہانی نئے اسکرپٹ اور نئے کرداروں کے ساتھ سننے کو ملتی ہے لیکن ہمیں اس کے اسباب کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ ایسا ہوتا کیوں ہے۔ کپتان کو تبدیل کردو، کوچ کو ہٹا دو سلیکٹر کو گولی ماردو؟ یہ طریقہ کار درست نہیں ہے جب ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو ہم فرسٹ کلاس ڈھانچے کو ذمے دار قرار دے دیتے ہیں۔ فٹنس پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہم اپنے کھلاڑیوں کو وقت پر ریٹائر نہیں کرتے۔ ورلڈ کپ میں فٹنس پر کمپرومائز کیا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ کسی بھی کام کے لئے اہل شخص کا تقرر کیا جائے، مستقل مزاجی بھی ضروری ہے۔ سسٹم کو چلانے کے لئے اچھا وقت دینا چاہیے۔ انہوں نے شعیب ملک اور محمد حفیظ کا براہ راست نام لینے سے گریز کیا۔ وہ لندن میں نمائندہ جنگ کو خصوصی انٹر ویو دے رہے تھے۔ وقار یونس کی جگہ2016میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے مکی آرتھر کا تقرر کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کوچز اور کپتان کو تین چار سال کا وقت دینا چاہیے۔ میں نے تین سال پہلے مارڈرن کرکٹ کا لکھ کر دیا تھا۔ کہا تھا کہ ہمیں ساڑھے تین رنز والی کرکٹ کھیلنا ہوگی۔ فٹنس کی بات کی تھی۔ لیکن میری تجاویز کے باوجود تین سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں۔ ہمارے پاس آج بھی وہ کرکٹر نہیں ہیں کو مستقل بنیادوں پر تین سو ساڑھے تین رنز بناسکیں۔ انڈر19اور اکیڈمی لیول پر بھی فٹنس کا فقدان ہے۔ اکیڈمیز،انڈر19اور پاکستان اے ٹیم کے کھلاڑی سپر فٹ ہونے چاہیں۔ ہمارے کرکٹر جب انٹر نیشنل کرکٹ کھیلنے آتے ہیں تو ان کا فٹنس معیار انٹر نیشنل سے کم تر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ ورلڈ کپ کے بعد کس کو بدلیں اور کس کو لائیں۔ نیا کرکٹ بورڈ اپنی حکمت عملی اور اپنا سسٹم لائے گا۔ فرسٹ کلاس سسٹم کو بھی تبدیل کیا جارہا ہے۔ میڈیا کی بھی ذمے داری ہے کہ نئے سسٹم کی حمایت کریں۔ کھلاڑی کی عمر پوری ہونے کے بعد اسے ریٹائر کرنے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ جب ورلڈ کپ قریب آتا ہے تو ہار کے ڈرسے اسے ٹیم میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ پچیس تیس سال پیچھے چلے جائیں ہم ہار سے بچنے کے لئے سینئرز کو کھلا کر اپنے لئے مسائل پیدا کردیتے ہیں۔ ورلڈ کپ کی پلاننگ کرتے ہوئے ایک لائن کھینچنی چاہیے کہ ایک سال رہ گیا ہے ہمیں کہاں جانا چاہیے۔ سلیکشن پر حکمت عملی بنانا بے حدضروری ہے۔ سابق کپتان نے کہا کہ ہم دو طرفہ سیریز بری نہیں کھیلتے ہیں ورلڈ کپ یا بڑے ٹورنامنٹ میں ہمارے کپتان کوچز سب ٹیسٹ ہوجاتے ہیں اور فٹنس کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ہمیں سری لنکا اور بنگلہ دیش کی سیریز کے بجائے آسٹریلیا کی بڑی سیریز کے لئے تیاری کرنی چاہیے۔ اس ورلڈ کپ میں دوسری ٹیموں کے مقابلے میں پاکستان ٹیم میں یہ بات واضح دکھائی دی کہ ہم فٹنس پر کمپرومائز کیا جن پندرہ کھلاڑی کو لائے تھے ان کی سلیکشن پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کپتان ،کوچ اور سلیکٹرز نے جس طرح سلیکشن پر کمپرو مائز کیا وہ چیزیں واضح دکھائی دیں۔ اس پر یہ کہہ دینا کہ ہم ورلڈ کپ کے چار آخری میچ اچھا کھیلے ہیں اس لئے اب آنکھیں بند کر لینی چاہیے۔ عزت بچ گئی لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم اس وقت جیتنے لگے جب ہم پر جیت کے لئے دبائو کم ہوگیا۔ افغانستان کے ساتھ جس طرح آخری اوور میں جیتے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

تازہ ترین