• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اپنے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات معمول کے مطابق ہوں گے اور ’’ ٹیک اوور ‘‘ کا کوئی چانس نہیں ہے یعنی فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ آصف علی زرداری کی یہ بات پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے لیکن آصف علی زرداری کے بیرون ملک قیام کے حقیقی اسباب کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے باوجود بہت سے معاملات سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں نہیں ہیں ۔ بہت سے داخلی اور خارجی معاملات میں بھی سیاسی قوتوں کا کردار کم ہوتا جا رہا ہے اور علاقائی اور عالمی سطح پر تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں بھی پاکستان کی سیاسی قیادت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس تناظر میں آصف علی زرداری کے بیان کو دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں وہ حالات نہیں رہے جو اقتدار پر فوج کے قبضے کے لیے سازگار ہوتے ہیں ؟پاکستان سمیت جن ترقی پذیر ممالک میں فوجی حکومتیں رہی ہیں ، ان سب ممالک کے سیاسی اور سماجی حالات میں کچھ باتیں مشترک ہیں لیکن پاکستان میں فوجی حکومتوں کا ایک بڑا سبب صرف پاکستان سے ہی مخصوص ہے ۔ وہ یہ ہے کہ پاکستان سرد جنگ کے زمانے میں عالمی سرمایہ دار بلاک کے لیے ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرتا رہا ہے ۔ وہ اس بلاک کے بڑے فوجی اتحادوں سیٹو ( SEATO ) اور سینٹو ( CENTO ) کا حصہ رہا ۔ یہ سب آج بھی موجود ہے ۔ سرد جنگ کے خاتمے اور نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے عرصے میں بھی پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ رہا اور اس وقت دہشت گردی کے خلاف جو عالمی جنگ جاری ہے ، اس میں بھی پاکستان ہی فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے ۔ ہم ابھی تک عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اور اس سے نکلنے کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آتے ہیں ۔ مخصوص علاقائی اور بین الاقوامی حالات میں پاکستان میں فوجی حکومتیں قائم ہوتی ہیں ۔ مثلاً افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جنگ سے پہلے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور امریکا میں نائن الیون کے واقعہ سے پہلے یہاں جنرل پرویز مشرف کی حکومت قائم ہوئی ۔ نائن الیون کے بعد عالمی مفادات کی جنگ کا میدان پھر افغانستان اور پاکستان بن گیا ۔ آصف علی زرداری زیادہ باخبر ہیں اور وہ جانتے ہوں گے کہ مئی 2018 تک امریکا اور اس کے حواریوں کا اس خطے میں نئی جنگ شروع کرنے کا شاید کوئی پروگرام نہ ہو لیکن معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے تو چین ، روس اور دیگر ممالک اس خطے سے جس طرح امریکا کو نکالنے یا اس کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے نئی صف بندی کر رہے ہیں ، یقیناً امریکا بھی اس حوالے سے جوابی حکمت عملی مرتب کر چکا ہو گا ۔ عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارا خطہ پہلے کی طرح ’’ فلیش پوائنٹ ‘‘ نہیں رہا اور نئی عالمی صف بندی کسی تصادم پر منتج نہیں ہو گی ۔جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے لیے داخلی سطح پر کسی ملک میں جو سیاسی ، معاشی اور سماجی حالات ہونے چاہئیں ، وہ بھی پاکستان میں پیدا نہیں ہو سکے ہیں ۔ پشاور میں سرکاری ملازمین کی بس پر دہشت گردوں کے حالیہ حملے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے ۔ پاکستان کی مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی فورسز بہت کوششیں کر رہی ہیں لیکن دہشت گردی کا یہ عفریت قابو میں نہیں آرہا ۔ 1989 ء میں امریکی صدر جارج بش سے ملاقات میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے جارج بش کو متنبہ کیا تھا کہ ’’ سوویت یونین کے خلاف جس انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ہے ، اس سے ہم نے ایک ایسا فرینکنسٹائن ( Frankenstein ) تخلیق کر ڈالا ہے ، جو ہمیں تنگ کرنے کے لیے واپس آئے گا ۔ ‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے ’’ ہم ‘‘ کا صیغہ استعمال کیا ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فرینکنسٹائن ( عفریت ) امریکا نے تخلیق کیا ہے اور اس کی بنیاد پر اسے دنیا پر حکمرانی کے لیے آئندہ بھی استعمال کرنا ہے ۔ دہشت گردی عالمی سرمایہ داری کا نیا کاروباری حربہ ہے ۔ دہشت گردی معیشت ہے ، دہشت گردی سیاست ہے اور دہشت گردی حکمت عملی ہے ۔ ہمارے ہاں بھی کچھ طاقتیں اس معیشت ، اس سیاست اور اس حکمت عملی کا حصہ ہیں ۔ دہشت گردی کا واقعہ جہاں بھی ہوتا ہے ، اسے عالمی ’’ اونر شپ ‘‘ حاصل ہوتی ہے ۔ پاکستان میں جس طرح دہشت گردی کو کنٹرول کیا جا رہا ہے ، اس میں سیاسی قوتوں کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اس لیے دہشت گردی کے خاتمے کے امکانات بھی زیادہ قوی نہیں ہیں ۔ نائن الیون کے بعد بھی پاکستان میں سیاسی صف بندی تبدیل نہیں ہوئی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں بھی پاکستان کی دائیں بازو کی قوتوں اور اصل مقتدرہ کے مابین تصادم نہیں ہوا ہے ۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے ۔ اس عرصے میں ترقی پسند اور لبرل قوتیں کمزور ہوئیں اور ان کے خلاف اب سیاسی منظر نامے پر ایک بڑا اتحاد بننے جا رہا ہے ۔ پاکستان میں طبقاتی ، قومیتی ، لسانی ، نسلی ، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر افقی اور عمودی تقسیم گہری ہو رہی ہے اور قومی یکجہتی کا وہ ماحول نہیں ہے ، جو جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ سیاست میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے ، اس میں بھی سیاسی قوتیں محض خاموش تماشائی ہیں ۔ احتساب کے عمل سے بھی سویلین حکومتیں لاتعلقی کا اظہارکر رہی ہیں ۔ پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی لیڈر شپ بھی نہیں ہے ، جو پاکستان کے اندرونی معاملات کو دودبارہ اپنے کنٹرول میں لینے اور بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورت حال میں موثر کردار ادا کر سکے ۔ ان حالات میں بھی اگر آئندہ عام انتخابات معمول کے مطابق ہوتے ہیں اور کوئی ٹیک اوور نہیں ہوتا ہے تو اس کا کریڈٹ سیاسی قیادت کو نہیں بلکہ عسکری قوتوں کو جائے گا۔
تازہ ترین