• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
برطانیہ کے نئے وزیراعظم کو ایک جسیم، دیو قامت ٹاسک کا سامنا کرنا پڑے گا- دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اتنا جاں گسل دشوار گزار وقت یا قومی اور معاشی سیکورٹی کے ایسے سنجیدہ اور سریس ٹائم کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ مسائل کی جڑ بریگزٹ ہے۔ درپیش گوناگوں چیلنجز کا محور اور مرکزی نقطہ بریگزٹ سے جڑا ہوا ہے اور کاروباری افراد اور تنظیمیںبتارہی ہیں کہ یہ سیاسی فیصلہ ہے جس کے ملکی معیشت اور ملازمتوں اور لوگوں کی زندگیوں پراس کے کتنے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔اس امر کی نشاندہی برطانیہ کی سب سے زیادہ موثر کاروباری تنظیم سی بی آئی کے ڈائریکٹر جنرل کیرولین نے دی فنانشل ٹائمز میں اپنے ایک آرٹیکل میں کی ہے ۔ CBI
(Confederation of British Industry) یہ ایک لاکھ نوے ہزار کاروباری اداروں کی نمائندگی کرتی ہے - یہ یوکے کی پریمئیر بزنس آرگنائزیشن ہے جو فرموں کو لوکل ، نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر وائس مہیا کرتی ہے جن کے مجموعی طور پر سات ملین ملازمین ہیں ۔ یہ پچاس سال سے کام کر رہی ہے وائٹ ہال کے باہر ایک سو سے زائد معاشی ماہرین بی آئی کے لیے کام کر رہے ہیں نو ڈیل (کہ جس کا بہت چرچا ہے) کوئی اکسیر اعظم یعنی ہر مرض کی دوا نہیں، ایک کلین بریک یورپی یونین سے صاف شفاف علیحدگی بھی نہیں اور نہ ہی موجودہ غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہے۔ مسٹر ہنٹ اور مسٹر جانسن کے برطانیہ کی معیشت کو ٹیکوں کے نسخے یہ وجوہات کی بنا پر دیرپا علاج نہیں جیسا کہ دی انسٹی ٹیوٹ فار فسکل سٹڈی نے کہا ہے کہ بزنسز کارپوریشن ٹیکس میں کٹوتی کے لیے رونا نہیں رو رہے اور نہ ہی وہ سرخ فیتہ کے خاتمہ کے لیے شور مچا رہے ہیں بلکہ ہم اس وقت ان امور کے پیچھے مس کانسپشن کے طور پر سست روی سے بے خبری میں ایک نو ڈیل بریگزٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سو پھر آخر کیا وقوع پزیر ہوگا؟۔ٹوری لیڈرشپ امیدواروں کو ایک نو ڈیل ایگزٹ کے لیے تیاری کرتے کے وقت لازمی طور پر بہت زیادہ توانائی ایک ڈیل کی رضامندی کے لیے صرف کرنی چاہئے یہ ان کی اولین ترجیح ہونی چا ہئے ورنہ ہمیں بہت تاخیر سے یہ معلوم ہوگا کہ نو ڈیل برطانیہ کو بھیڑ بند سے باہر نہیں نکال پائی بلکہ اسے ایک طویل مدت تک مزید بند گلی میں پھنسا گئی ہے۔ اس لیے بغیر معاہدے کے اکتوبر میں ای یو سے علیحدگی وہ کلین بریک نہیں جس کی لوگ آرزو کر رہے ہیں۔ نو ڈیل برطانوی معیشت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اورحتیٰ کہ ای یو کے لیے بھی بعدازاں ضرر رساں ثابت ہوگی۔بزنسز چار مراحل پر نو ڈیل کا امپکٹ نقصان اگلے کئی برسوں تک دیکھ رہے ہیں۔اوّل سٹیج ، اثر یہ ہے جو ہم ابھی دیکھ رہے ہیں جو ایک نو ڈیل کے خطرہ سے محسوس کی جاسکتی ہے۔ جس باعث ہی بزنسز انویسٹمنٹ گزشتہ سال گر گئی۔سی بی آئی سیکٹر کا تازہ ترین سروے لوگوں کے اعتماد میں کمی کو واضح کر رہا ہے۔ دوسرا سٹیج، بذات خود انخلاء سے بزنسزکاروباروں کی فزیکل خرابی ہے۔جیسا کہ بارڈر چیکس متعارف کرائے گئے ہیں۔ پورٹ پر سامان کے حوالےسے تاخیر ہوگی اور بیک لاگ ہوگا۔ آٹو موٹیو مینوفیکچررز صرف تین ہفتے تک سٹاک پائیل کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے بلیک فرائیڈے کے دوران اور کرسمس تک گیارہ سو ٹرکس پھنس سکتے ہیں یعنی پورٹ پر سامان سے لدی ہوئی کئی گاڑیاں رکی ہوئی ہوں گی۔ اس پس منظر میں سپر سٹورز اکتوبر کے نو ڈیل پراسپکٹس کے متعلق خبردار کرتے ہوئے اس کو بدترین قرار دے رہے ہیںکہ سال کے آخری تین ماہ وہ عرصہ ہوتا ہے جب ساؤدرن یورپ سے تازہ فوڈ برطانیہ آتا ہے جسے سٹور نہیں کیا جاسکتا ۔اسی طرح کئی سروسز کمپنیوں کو جو اپنی سروسز اور سیلز کو فون یا ای میل کے ذریعے یا یورپ ٹریول کے ذریعے مہیا کرتی ہیں اگر انہوں نے پہلے سے بہتر منصوبہ بندی نہیں کرلی تو شاید اپنی سروسز کو واپس لینا پڑ سکتا ہے ۔تیسرا سٹیج، مرحلہ وہ عرصہ ہے جب برطانیہ کو ای یو کمپنیوں سے کاروباری نقصانات کے ازالے کے لیے گفت وشنید کرنا پڑے گی۔ اس حوالےسے بہت سارے خلاء ہیں جو پر کرنا پڑیں گے جن کے لیے خاصا وقت درکار ہوگا۔ چوتھا سٹیج، وہ سب سے زیادہ سیریس نوعیت کا ہے کہ کسی نئے معاہدہ کے نہ ہونے کی صورت میں برطانیہ کو مجبوراً” ای یو مصنوعات پر ویلیو کے اعتبار سے نوے فیصد ٹیرف ادا کرنا پڑے گا ای یو کئی برطانوی پراڈکٹس پر ڈبل ٹیسٹنگ اپلائی کر دے گا جن میں بچوں کے کھلونے شامل ہیں۔ سروس مہیا کرنے والے بعض ادارے جن میں براڈکاسٹنگ اور انشورنس کمپنیاں شامل ہیں اور یہ برطانوی معیشت کا اسی فیصد ہیں کو برطانیہ سے باہر شفٹ ہونے ہر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے تاکہ اپنی سروسز کو محوفظ طریقے سے جاری رکھ سکیںدی انڈی پنڈنٹ نے انتباہ کیا ہے کہ ایک نو ڈیل بریگزٹ کی صورت میں برطانوی کمپنیوں کو بچانے کا خرچ بائیس بلین سالانہ تک اٹھ سکتا ہے جس باعث بورس جانسن کو نوڈیل کا تاثر پھیلانے پر تنقید کا بھی سامنا ہے۔ ادھر برطانوی پریس جو کسی بھی درپیش صورت حال پرمعنی خیز الفاظ تلاش کرنے اور شہ سرخیاں جمانے کا ملکہ رکھتا ہے اس تناظر میں دی ٹائمز لندن نے پیر 15 جولائی، کو نوڈیل کے مقابلے میں اب “ٹرمپ ڈیل” Trump deal کی اصطلاع متعارف کی ہے۔ Johnson to seek Trump deal in first move as PM ۔دی ٹائمز کے سیاسی نمائندوں کی صفحہ اوّل پر یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ بورس جانسن صدر ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کار ری سیٹنگ کرنے کے لیے ڈاؤننگ سٹریٹ میں اپنے وزیراعظم بننے کی صورت میں پہلی ترجیح کے طور پر امریکہ ٹریول کر کے ان سے ایک پوسٹ بریگزٹ ڈیل پر گفت و شنید کرنا چاہیں گے۔ سابق فارن سیکرٹری جوں ہی (اگر ) لیڈرشپ کی دوڑ میں کامیاب ہوئے تو وہ یو ایس پرواز کرنے کے لیے تیار ہوں گے تاکہ اپنی 31 اکتوبر کی اپنی ڈیڈ لائن کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کر سکیں ۔ مسٹر جانسن کے ایک قریبی رفیق کار کے حوالے دی ٹائمز نے آگاہ کیا ہے کہ اس سارے معاملے کا خاص پہلو یہ ہے کہ اگر امریکہ برطانیہ امریکہ کے ساتھ کسی تجارتی معائدے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر مارکیٹ میں برطانوی تیزی سے دیگر معاہدے کرنے میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ یقینی طور پر مسٹر جانسن کا آئیڈیا برا نہیں مگر ابھی برطانیہ امریکہ نئی مجوزہ ٹریڈ ڈیل پر کچھ زیادہ قیاس آرائی کرنا قبل ازوقت ہوگا۔پہلے ٹوری لیڈرشپ کا نتیجہ تو برآمد ہو۔
تازہ ترین