• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سید علی جیلانی
آخرکار کرکٹ ورلڈکپ کا اختتام ہوا اور انگلینڈ نے ایک سنسنی خیز مقابلہ کے بعد نیوزی لینڈ کو شکست دی اور انگلینڈ کی یہ خواہش بھی پوری ہوئی کہ ہم اپنے ہوم گرائونڈ میں کرکٹ ورلڈکپ کرارہے ہیں تو ورلڈکپ ہمیں جتنا چاہئے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا ورلڈکپ جیتنے کا خواب ادھورا رہ گیا لیکن دیکھا جائے تو پاکستانی ٹیم نے ورلڈکپ کو سیریز ہی نہیں لیا اور ٹیموں نے اتنے سالوں پہلے ورلڈکپ کی تیاری شروع کردی تھی اور اپنی اپنی ٹیموں کو بیٹنگ، فیلڈنگ اور بولنگ کے شعبے میں بہتر کیا، نیوزی لینڈ کی مثال لے لیں کہ کتنی خوبصورت محتاط انداز سے بیٹنگ، بہت ہی اچھی بولنگ اور فیلڈنگ پیش کرکے دوسری ٹیموں کے لئے مثالی نمونہ پیش کیا ہماری ٹیم کو دیکھیں توسیلیکشن کمیٹی نے پہلے تو عامر اور وہاب کو لے جانا ہی گوارا نہیں کیا پھر شاہین آفریدی کے ساتھ کیا سلوک کیا لیکن یہ ہی تینوں بولروں نے تمام ٹیموں کے چھکے چھڑا دیئے۔ فخرالزمان کو دیکھ لیں غیرضروری بولوں کو کھیل کر ہمیشہ پویلین جانے کی جلدی رہی اور حیرت اس بات پر تھی کہ اسکو بار بار میچ کھلائے جارہے ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی چچا ماموں یا رشتے دار ہے بہت ہی پاور والا جو اسکو ٹیم سے نکلنے نہیں دے رہا اگر ہمارے اوپنر ہمیشہ 10اوور سکون سے اور غیرضروری بالوں کو چوڑ کر کھیل لیتے اور سرفراز صاحب خود ذرا اوپر آکر کھیلتے اور صحیح کیپٹن ہونے کا ثبوت دیتے تو آج یہ ٹرافی ہمارے ملک آتی، سرفراز کا تو یہ لگ رہا تھا کہ وہ بیٹنگ کے لئے آنا ہی نہیں چاہ رہے ہیں اور دوسرے بیٹسمینوں کو بھیجے جارہے ہیں اور جب بیچارے سرفراز کو مجبوراً آنا پڑا تو کارکردگی صفر۔ خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں بابراعظم کو جو ہمیشہ مشکل وقت میں آیا اور بالکل نہیں گھبرایا اور سکون سے بہترین اور قابل دید اسٹروک کھیلے تمام ورلڈکپ کے تبصرے نگار اس کی بے انتہا تعریف کررہے ہیں اسی طرح تمام کھلاڑیوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں تھیں۔ ہماری ٹیم تو بس اسی آسرے پر رہی کہ قوم دعا کررہی ہے اور سارا کھیل 92ورلڈکپ جیس ہورہا ہے تو انشاء اللہ ورلڈکپ بھی ہمارا ہوگا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنی کارکردگی بہتر کرنے کے بجائے یا رنز ریٹ بہتر کرنے کے بجائے ’’اگر مگر کے کھیل‘‘ میں الجھ گئے کہ اگر بھارت انگلینڈ کو ہرا دے تو ہم ڈائریکٹ ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پہنچ جائیں، ہمیں سارے میچ جیتنے ہونگے پھر جو کارکردگی افغانستان کے خلاف دکھائی بس ایسا لگتا تھا کہ اسپن بولر کو تو ہمارے کھلاڑی کھیل ہی نہیں سکتے پھر جب بھارت انگلینڈ سے ہارا تو بات سننے میں آئی کہ بھارت جان بوجھ کر ہارا ہے تاکہ پاکستان سیمی فائنل میں نہ پہنچ سکے یہ بھی کہا گیا کہ یہ 2009ء چیمپئن ٹرافی کا بدلہ ہے تمام ماہرین یہ کہتے رہے کہ بھارت اپنی صلاحیتوں کے مطابق نہیں کھیلا پھر پوزیشن یہ آگئی کہ پاکستان پہلے بیٹنگ کرے اور بنگال ٹائیگر کو 300سے زائد رنز سے شکست دینا ہوگی اور بولنگ کرتا ہے تو بنگلہ دیش کو 38رنز پر آئوٹ کرنا ہے جو کہ ناممکن بات تھی اس طرح ’’اگر مگرکا کھیل‘‘ کے چکر میں پاکستانی ٹیم کا ورلڈکپ جیتنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ لیکن بعد میں کیا سوچنا جب ’’چڑیاں چک گئیں کھیت‘‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ معجزات کے انتظار میں پڑ جاتے ہیں اور کوئی پلاننگ نہیں کرتے، دعا جب ہی کام کرتی ہے جب آپ محنت کرو اگر ہم ہمیشہ اسی انتظار میں رہیں کہ کوئی نہ کوئی معجزہ ہمیں ورلڈکپ جتوادے گا تو ایسا ممکن نہیں ہوتا جس طرح اگر کوئی بچہ کلاس میں ہو اور امتحان کا وقت قریب آجائے اور وہ کتابوں کو نہ کھولے بس یہ انتظار کرے کہ ماں باپ دعا کررہے ہیں اور میں پاس ہوجائونگا۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بھارت جان بوجھ کر انگلینڈ سے ہارا ہے اور بھارت یہ چاہتا تھا کہ ہم سیمی فائنل میں نہ پہنچیں۔ لیکن پاکستانی ٹیم نے اگر رن ریٹ شروع سے اچھا رکھا ہوتا اور ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ نہ ہارتے آج ہم سیمی فائنل میں کھیلتے اور کیا پتہ ورلڈکپ بھی جیت کر آجاتے۔ اگر کوئی بھی انسان کسی بھی امتحان میں فیل ہوجاتا ہے تو پھر پہلے سے زیادہ محنت کرتا ہے اب ہمیں سرجوڑ کر بیٹھنا ہے اور عمران خان سے بھی گزارش ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداران کے ساتھ میٹنگ کریں اگر سلیکشن کمیٹی میں صلاحیت نہیں ہے تو باصلاحیت لوگوں کو آگے لائیں سارے فیصلے صرف اور صرف میرٹ پر کریں پورے ملک سے اچھے سے اچھے کھلاڑی تلاش کریں ایسے سیلیکٹر اور کھلاڑی تلاش کریں جو وطن کی عزت و عظمت کا سوچیں مطلب پرست، چاپلوسی کرنے والے لوگ، سفارشی لوگوں کو فارغ کریں۔ اب ہمارے سامنے اگلے سال T20کا ورلڈکپ ہے اسکی ابھی سے پلاننگ کریں یہ سوچیں کہ ورلڈکپ 2019ء میں ہم نے کہاں کہاں غلطیاں کی ہیں ان کو بہتر کریں۔ تجربہ کار کھلاڑیوں سے فائدہ اٹھائیں ہم تو وہ قوم ہیں کہ ڈاکٹر علامہ اقبال خواب دیکھتے ہیں اور قائداعظم محمد علی جناح ہمارے لئے ایک الگ وطن بنادیتے ہیں لیکن صرف محنت اور جدوجہد سے۔ اب ہمیں آئندہ کبھی بھی ’’اگر مگر کے کھیل‘‘ میں نہیں پڑنا کہ فلاں ٹیم فلاں ٹیم سے ہار جائے تو ہم سیمی فائنل میں پہنچ جائیں گے، آپ نے دیکھا کہ ہم نے آخر کے میچ جان لڑا کر محنت کرکے جیتے تو کیا ہم اگر شروع ہی سے اس طرح سوچتے تو کیا اپنا مقصد نہیں حاصل کرسکتے تھے۔ T20کے لئے ایسے کھلاڑی چاہیں جوکہ بولروں سے نہ گھبرائیں سوچ سمجھ کر اور اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر کھیلیں، کیا ہمارے کھلاڑی نہیں چاہتے کہ جب ہم وطن لوٹیں تو قوم ہمارے اوپر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرے نہ کہ ہمارا استقبال ٹماٹروں سے ہو یا ہمیں برابھلا کہا جائے یا ہمیں رات کے اندھیرے میں آنا پڑے یہ فیصلہ ہم کھلاڑیوں پر چھوڑتے ہیں۔
تازہ ترین