• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی حکومت کا الیکشن سے قبل اور الیکشن کے بعد یہ بلند و بانگ دعویٰ تھا کہ ’’ہم برسر اقتدار آکر پاکستانیوں کے سوئس بینکوں میں رکھے اربوں ڈالر وطن واپس لائیں گے‘‘، جبکہ وزیر مواصلات مراد سعید نے یہ برملا دعویٰ بھی کیا تھا کہ ’’حکومت بہت جلد سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر پاکستان واپس لائے گی‘‘۔ ان کا یہ دعویٰ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں انہوں نے عوام کو نوید سنائی کہ ’’سوئس بینکوں میں رکھے 200ارب ڈالر پاکستان واپس لاکر 100ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر ماریں گے اور باقی 100ارب ڈالر عوام میں تقسیم کئے جائیں گے‘‘ مگر آج 11ماہ گزرنے کے باوجود بھی حکومت کی جانب سے اِس سلسلے میں کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی اور حکومت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔

گزشتہ دنوں حکومت کو اُس وقت ہزیمت اٹھانا پڑی جب سوئٹزر لینڈ سینٹرل بینک اور سوئس نیشنل بینک کی سالانہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ’’سوئس بینکوں میں رکھی پاکستانیوں کی مجموعی رقم 34فیصد کم ہو کر 73کروڑ 80لاکھ رہ گئی ہے‘‘۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ’’سوئس بینکوں میں رکھی پاکستانیوں کی رقوم میں کمی کی وجہ 2015میں پاکستان اور سوئٹزر لینڈ کے درمیان ہونے والا وہ معاہدہ تھا جس کے تحت پاکستان کو سوئس کھاتوں کی معلومات تک رسائی فراہم کی جا سکے گی‘‘۔ اسی طرح کی ایک اور پیشرفت میں عالمی ادارے OECDسے حکومت پاکستان کے کئے گئے معاہدے کے تحت حال ہی میں ایف بی آر کو 128ممالک میں ایک لاکھ 52ہزار سے زائد پاکستانیوں کے بینک اکائونٹس کی معلومات فراہم کی گئی ہیں جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان ممالک کے بینکوں میں پاکستانیوں کے 7.5ارب ڈالر موجود ہیں۔ اس بات کی تصدیق ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسز نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں بھی کی اور بتایا کہ OECDسے ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستانیوں کے 7.5ارب ڈالر بیرونی بینکوں میں موجود ہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان اطلاعات کے بعد ایف بی آر اُن ایک لاکھ 52ہزار سے زائد پاکستانیوں کو نوٹس جاری کرتی مگر ایف بی آر کے ڈی جی نے اجلاس کے دوران یہ انکشاف کر کے قائمہ کمیٹی کے اراکین کو حیران کردیا کہ ’’ایف بی آر نے ان افراد میں سے کسی کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا‘‘۔ واضح رہے کہ دنیا میں منی لانڈرنگ کے قوانین میں سختی لانے کیلئے 2017میں پاکستان سمیت 104ممبر ممالک نے OECDمعاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے تحت یہ ممالک ٹیکس چوری کی روک تھام کے سلسلے میں بینکنگ معلومات شیئر کرنے کے پابند ہیں جبکہ اسی سلسلے میں پاکستان اور سوئٹزرلینڈ حکومت کے درمیان DTA نظرثانی معاہدہ طے پایا تھا جس کی منظوری کے بعد 11سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے غیر قانونی طور پر رکھے اربوں ڈالر کے اکائونٹس کی تفصیلات سوئٹزر لینڈ، پاکستان کو فراہم کرنے کا پابند تھا اور حالیہ دنوں میں سوئٹزر لینڈ سے حاصل کی گئی معلومات اُسی معاہدے کا حصہ ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بیرون ملک بینکوں میں موجود پاکستانیوں کی غیر قانونی رقوم ملک کے اقتصادی نظام میں کرپشن، بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ کا نتیجہ ہیں جس نے ملکی اقتصادی نظام، انتظامی و ریاستی اداروں میں موثر چیک اینڈ بیلنس اور مالیاتی شفافیت کے تمام دعوئوں کو غلط ثابت کر دیاہے۔ OECDاور سوئٹزر لینڈ سے کئے گئے معاہدوں کے بعد اب سیاستدانوں، حکمرانوں اور بیورو کریٹس کیلئے اپنی رقوم بیرون ملک بینکوں میں رکھنا اب تقریباً ناممکن ہو گیا ہے، اس لئے اب اُنہیں ہر حال میں اپنے بیرون ملک موجود کالے دھن کو واپس لانا ہوگا۔ حکومت کی قانونی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ OECDاور سوئٹزر لینڈ سے کئے گئے معاہدے کے تحت پاکستانیوں کی بیرون ملک موجود غیرقانونی دولت کے بارے میں نہ صرف معلومات حاصل کرکے منظر عام پر لائے بلکہ یہ کالا دھن پاکستان واپس لانے میں کسی سیاسی مصلحت اور مفاہمت سے کام نہ لے کیونکہ موجودہ حالات میں پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے جسے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔

پاناما کیس جب سامنے آیا تو اس میں 300سے زائد پاکستانیوں کے نام منظر عام پر آئے جو آف شور کمپنیوں کے مالک تھے مگر کیس صرف نواز شریف کے خلاف ہی بنا جبکہ پاناما کیس میں آف شور کمپنیاں رکھنے والے دوسرے افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس عمل نے عمران خان اور ان کی حکومت کے بلند و بانگ تمام دعوے کھوکھلے ثابت کردیئے ہیں۔ آج جب سوئٹزرلینڈ حکومت اور OECDپاکستانیوں کی 128ممالک میں موجود مجموعی رقم کے بارے میں انکشاف کرچکی ہے کہ یہ رقم 8.5ارب ڈالر سے زائد نہیں جس کے بعد اب سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر کی موجودگی کا دعویٰ عمران خان کے الیکشن سے قبل عوام کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کئے گئے اُن فرضی دعوئوں کی طرح ثابت ہورہا ہےجن کی بنیاد پر عوام نے عمران خان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں۔

کہتے ہیں کہ جب توقعات بڑھتی ہیں تو مایوسی بھی اُسی قدر بڑھتی چلی جاتی ہے جیسا کہ آج پی ٹی آئی حکومت اور اس کی سیاسی قیادت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آپ جھوٹے وعدے اور کھوکھلے دعوے کر کے کچھ وقت کیلئے عوام کی حمایت تو حاصل کر سکتے ہیں مگر یہ حمایت و مقبولیت دیرپا اور مستحکم ثابت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں وقت کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی مقبولیت میں روز بروز کمی واقع ہوتی جارہی ہے اور وہ لوگ جو کل تک ان کے وعدوں اور دعوئوں کی بنیاد پر اُنہیں ’’ہیرو‘‘اور ’’مسیحا‘‘ قرار دیتے تھے، آج یہ کہتے سنے جارہے ہیں کہ ’’ہم نے عمران خان کے وعدوں اور دعوئوں پر بھروسہ کرکے بہت بڑی غلطی کی‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین