• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابائے لبرل ازم جون لاک نے کہا تھا کہ ’’تمام انسان آزاد ہیں اور برابر برابر ہیں، کوئی بھی شخص یا ادارہ کسی دوسرے فرد کی زندگی، صحت، آزادی اور ملکیت کو نقصان نہیں پہنچا سکتا‘‘۔ یہ تصور اس لئے بھی درست ہے کہ جب کوئی کسی کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کر کے اقدامات کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت وہ دوسرے کے دل میں ایسے جذبات کا محرک بن رہا ہوتا ہے کہ جو بہرحال اس کے اپنے خلاف ہوتے ہیں اور اگر کوئی حکومت اپنے شہریوں کی یا ان کے کسی طبقے کی آزادی میں مداخلت شروع کر دے تو ایسی صورت میں پورا معاشرہ اور اس کی بنیادوں پر کھڑی ریاست و حکومت بذات خود خطرات میں بتدریج گرفتار ہو جاتی ہے۔ یہ تمام گفتگو میں نیویارک کے ائیر پورٹ پر اپنے دوست اور امریکی اسکالر اسٹیف سے باتیں کرتے ہوئے کار میں سوار ہوتے ہوئے کرتا رہا۔ ائیر پورٹ پر ہی گفتگو امریکی صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے لیکر اب تک انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے اقدامات، ترجیحات اور لفظی گولہ باری کے متعلق تھی۔ صدر ٹرمپ جس انداز کی انتخابی مہم چلاتے ہوئے منصب صدارت تک پہنچے اس سے امریکہ میں عشروں سے مقیم لوگ ایک اضطراب کا شکار ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے جس طرح ایک میدان جنگ میں کام آئے مسلمان امریکی فوجی اور اس کے والدین کا مذاق اُڑایا اس نے اس اضطراب کو مزید بڑھاوا دیا۔ منصب صدارت پر فائز ہونے کے بعد سات مسلمان ممالک پر سفری پابندی عائد کر کے انہوں نے ایک واضح پیغام دیا بلکہ انجیلا مارکل کی پناہ گزینوں کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے عزائم کو واضح کر دیا وہ نہ صرف کہ امریکہ بلکہ پوری دنیا میں انتہا پسندانہ نظریات پروان چڑھانے کا مکمل منصوبہ رکھتے ہیں۔

شریک گفتگو ایک دوسرے امریکی بولے کہ یہ صرف علامتی اقدامات تھے مگر اس سے امریکی معاشرے پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا بات درست نہ تھی۔ میں نے کہا کہ نریندر موودی نے بھارت میں ایک فضاء بنا دی ہے اب اس فضاء کو بنانے کے اثرات ہیں کہ وہاں مسلمانوں کو سر عام درختوں سے باندھ باندھ کر جان سے مارا جارہا ہے۔ جیسا کہ تبریز انصاری کے واقعے میں یہ درست ہے کہ امریکی معاشرہ بھارتی معاشرے کی نسبت بہت مضبوط ہے اس کی سماجی حرکیات بھی مختلف ہیں لیکن منافرت کا بیج ہر زمین پر اگ آتا ہے لہٰذا اس کے نتائج امریکہ کے اپنے داخلی استحکام کے لئے اچھے نہیں ہونگے۔ ٹرمپ کا رویہ صرف مسلمانوں یا غیر سفید فام اقوام کے لئے ہی غیر مناسب نہیں ہے بلکہ اپنے پر ہونے والی تنقید کو برداشت کرنا جو امریکی نظام حکومت کا خاصا ہے ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔ میڈیا جب ان پر تنقید کرتا ہے تو وہ لفظی گولہ باری سے نہیں چوکتےCNN کے رپورٹر کے ساتھ بھری پریس کانفرنس میں بدتمیزی کرتے ہیں میڈیا کے معاملات کو دیکھنا ہو تو رپورٹرز وید آئوٹ بارڈرز تنظیم کا ٹرمپ کے خلاف احتجاج اور ان کے بیانات کو سامنے رکھ لیا جائے۔ امریکہ کی ریاست ایک تصور پر قائم ہے اگر اعلیٰ ترین منصب پر فائز امریکی شخص ہی ان اقدار کو پامال کر رہا ہو گا تو ایسی صورت میں ترقی ترقی معکوس ہی ہو گی لیکن اکثر سمجھ تب آتا ہے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے۔ میں نیو یارک پہنچنے سے ایک ہفتہ قبل بیجنگ میں موجود تھا اور وہاں کے چینی دوستوں سے بھی یہی گفتگو ہوتی رہی تھی۔ چین میں کچھ کمیونٹیز نے ایک اضطراب کی کیفیت موجود ہے وہ اپنی آزادی امن کے حوالے سے ایک فکر مندی کا شکار ہو چکے ہیں گھروں کے دروازوں پر QRکوڈ لگانا سنکیانگ کے مسلمانوں کے لئے ایک تکلیف دہ عمل بن چکا ہے اس کے ذریعے گھروں میں داخل اور باہر آنے والوں کا مکمل ڈیٹا حاصل کیا جا چکا ہے اسی طرح کیمپوں میں چاہے وہ ووکیشنل ٹریننگ کی غرض سے ہی ہو رکھنا شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ پھر بہرحال وہاں تحریر و تقریر کی وہ آزادی میسر نہیں ہے کہ جو سوچ کی ارتقاء کے لئے لازمی جوہر ہے۔

اگر چین اپنے مسائل پر قابو پا لے تو اس کی ترقی کی رفتار مزید تیز ہو سکتی ہے۔ ان دونوں ممالک میں جب سوچ کی، اظہار رائے کی آزادی کی بات کی تو اور اس کو ترقی کی بنیادی وجہ قرار دیا تو سوچ کا رخ لا محالہ وطن عزیز کی جانب مڑگیا بدقسمتی سے ہم آمرانہ دور میں نہ بھی رہ رہے ہوں تو بھی آمرانہ رویے بالخصوص جو آپ کی آزادی فکر آزادی رائے کو برداشت نہ کر رہے ہوں تو کہیں نہ کہیں موجود ہی رہتے ہیں۔ اگر اسحاق ڈار کسی طور آپ کی بات ماننے کو تیار نہیں تو جلا وطنی اُن کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ جب یہ رویے اعلیٰ ترین سطح پر روا رکھے جاتے ہیں تو تب ہی سندھ میں اقلیتی برادری کے حوالے سے افسوسناک خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ جس پر بس ایک کھیل داس کوہستانی ہی احتجاج کرتا نظر آتا ہے۔ بیجنگ اور نیویارک میں اب تک ایک بات بار بار سننے کو ملی کہ پاکستان ایک دائرے میں تیر رہا ہے۔اور واحد وجہ صرف یہ سوچ ہے کہ صرف ہم ہی محب وطن ہیں۔جان لیجئے کہ ہمارا ایسا ہی رویہ ہمیں 1971ء میں زخم دے چکا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین