• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمر چیمہ

اسلام آباد :… ’میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا، کوئی ہڈی بھی سالم نہیں رہے گی، میں تمہیں غائب کرادوں گا، تمہارا جسم تمہارے گھر کے باہر پھینکوادیا جائے گا، اس مقصد کیلئے ایک خصوصی اسکواڈ ہوگا، یہ دھمکیاں ایک طاقتور وزیر سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے جونیئر افسران کو دے رہا تھا، یہ واقعہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر چند ہفتوں قبل پیش آیا تھا اور ایک مسافر کی جانب سے دی نیوز کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا، مختلف ذرائع سے مواد کی تصدیق کی گئی۔ سی اے اے نے تفصیلات میں جائے بغیر واقعے کی تصدیق کی جبکہ ڈی جی ایف آئی اے اس معاملے سے متعلق کوئی بھی گفتگو کرنے پر تیار نہیں تھے، اس کے بجائے انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس قہر کا مرکزی ہدف سی اے اے کا ڈیوٹی فیسیلٹیشن افسر تھا۔ وزیر کو ایک خصوصی جہاز سے سفر کرنا تھا جو وہ باقاعدگی سےاپنے تمام سفر کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ پروٹوکول ڈیوٹی پر سی اے اے کا عملہ اس کی موومنٹ سے بے خبر تھا۔ انہیں وی وی آئی پی لاؤنج سے جہاز تک لانے کیلئے کوئی بھی ایئرکنڈیشنڈ گاڑی نہیں تھی اور اسی وجہ سے وزیر طیش میں آگیا تھا۔ اس دن تو وہ اپنا غصہ نہیں نکال سکا جیسا کہ اسے روانگی میں تاخیر ہورہی تھی۔ چند روز بعد اپنی واپسی پر اس نے اسلام آباد ایئرپورٹ کے لاؤنج میں سی اے اے اور ایف آئی اے کے عملے کو اپنے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب اس انہیں شدید ڈانٹا اور خصوصی اسکواڈ کے ذریعے جبری گمشدگی کے اپنے ’وژن‘ کو شیئر کیا۔ اس کا غصہ اس کے باوجود کم نہیں ہوا۔ وزیر نے ان افسران کو مکمل ایذا پہنچانے کیلئے اپنے دفتر طلب کرلیا،ایسا کردیا گیا۔ ایک ایف آئی اے افسر جو کہ واقعے کے روز ڈیوٹی پر تھا اس کا تبادلہ وزیر کو مناسب پروٹوکول نہ دینے پر گلگت کردیا گیا۔ دریں اثناء دونوں محکمے انتقامی کارروائی کے خوف سے غیر ضروری ’تشہیر‘ سے بچنے کیلئے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم خصوصی اسکواڈ کے خیال نے خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں۔ صورتحال سے واقف افراد کا کہنا ہے کہ یہ محض جھوٹی دھمکی نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر نے محض اپنا غصہ نکالنے کیلئے خصوصی اسکواڈ کی تشکیل کا ذکر نہیں کیا۔ اس خیال پر دیگر فورمز میں بھی گفتگو ہوچکی ہے۔ یہ تصور دیگر اداروں پر بوجھ کم کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ دی نیوز نے تین مختلف افسران سے گفتگو کی جنہوں نے تصدیق کی کہ کام جاری ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق حکومت نیب کی جانب سے سیاسی لوگوں کو ایذا پہنچانے پر مطمئن نہیں جیسا کہ وہ عوامی دباؤ کے باعث اس بڑھتی ہوئی تنقید کے درمیان تمام احکامات ماننے میں تذبذب کا شکار ہے کہ احتساب بیورو صرف حکومت کے سیاسی مخالفین کے پیچھے ہے۔ ایک سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ اس سیاق و سباق میں تھا کہ وفاقی کابینہ نے خواجہ آصف کا اقامہ کیس اس حقیقت کے باوجود وزارت داخلہ کو ریفر کیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی انہیں اس معاملے سے کلیئر کرچکی ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے دوسرے دن میڈیا کو گزشتہ کابینہ کے اجلاس میں کئے گئے فیصلے کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک شخص جس نے وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور وزیر توانائی و پانی کی حیثیت میں کام کیا، اس نے ایک غیرملکی کمپنی سے تنخواہ نکلوائی، یہ پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ معاملہ ایف آئی اےکو ان ہدایات کے ساتھ ریفر کردیا گیا تھا کہ وہ پوشیدہ اور ظاہر تمام زاویوں سے تحقیقات کریں کہ کیسے کوئی شخص جسے ملک کی قومی سلامتی کی حفاظت کا ٹاسک دیا گیا ہو وہ کسی اور ملک کیلئے کام کر رہا ہو اور سلامتی کیلئے خطرہ بن رہا ہو۔ ایک اور ذریعے کے مطابق خصوصی اسکواڈ کا وزیر کا خیال ان کے اس خیال پر مبنی ہے کہ آرمی سے مدد کی درخواست کے بغیر اندرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے ایک طاقتور اور موثر ملکی سیکورٹی ہو۔ ماضی میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وفاقی سیکورٹی فورس بنائی تھی۔ اسے آرمی کی مدد کے بغیر پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کیلئے بظاہر ایک سول ٹاسک فورس بنایا گیا تھا۔ بعد میں اسے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جانے لگا اور جنرل ضیاء الحق نے اسے ختم کردیا۔ مذکورہ وزیر نقادوں پر برہم ہیں خواہ سوشل میڈیا پر یا مرکزی میڈیا پر۔ حال ہی میں صحافی احمد نورانی نےاس وزیر کےبارے میں ٹوئٹ میں تنقید کی تھی جس پروزیر نے گرفتاری کیلئے ایف آئی اے کو شکایت کی تھی، انکوائری جاری ہے اور ایف آئی اے حکام اس حوالے سے اپنے مستقبل کی کارروائی شیئر کرنے پر تامل سے کام لے رہے ہیں۔

تازہ ترین