• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سال آمدِ بہار پر ملک بھر میں انتخابات کی بہار بھی ہو گی۔ رنگ برنگ کے پھولوں سے مہکی بہار تو ہر سال آتی ہے اور اس کا وقت معین ہے، لیکن الیکشن کی بہار کا پاکستان میں کوئی وقت نہیں رہا۔ عوامی امنگوں کی اس بہار کے بارے میں اب یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ یہ بھی اب ہر پانچ سال کے بعد بمطابق آئین آیا کرے گی۔ وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ عوام نے بڑی ڈھٹائی سے، یا یوں کہہ لیں کہ قربانی دے کر پانچ سال تک اپنی انتہائی جائز امنگوں اور امیدوں کا خون کرا کر موجودہ حکومت کو اس کے آئینی اقتدار کی باری پوری کرا دی۔ یہ پانچ سال حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے لئے باغ و بہار میں گزرا نصف عشرہ تھا۔ اس میں حکمرانوں نے اپنی تو آئندہ نسلوں کی بھی ساری زندگی پُر بہار بنانے کے ”اہتمام“ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن عوام کے لئے یہ پانچ سال محض خزاں نہیں تھے بلکہ قیامت بن کر گزرے اور گزر رہے ہیں۔ جس طرح خودغرض، انتہا کے حریص اور جاہل حکمرانوں نے گلشن پاکستان کو اجاڑا ہے، وہ ترقی پذیر دنیا میں جاگیردارانہ جمہوریت کو گلے لگانے اور اس کا تقدس قائم کرنے کا عبرتناک انجام ہے۔ اس دور میں عوامی خدمت کا کونسا ادارہ ہے جو زوال پذیر ہوتا ہوا برباد نہیں ہوا اور عوام کی دولت کا کونسا ذریعہ ہے جس میں لوٹ مار نہیں ہوئی۔ جمہوریت کے اس جاگیردارانہ ماڈل کا کتنا مکارانہ انداز ہے کہ حکمرانوں نے پانچ سال اپنے خلاف آئین مفادات کے تحفظ میں ناقابل یقین سیاسی گٹھ جوڑ اور ان کے اتحادی بار بار حیرت انگیز یو ٹرن لیتے رہے۔ ملک بھر میں دہشت گردی اور اندھیرے ایسے پھیلے کہ لاکھوں خاندانوں کا روزگار کھا گئے اور کروڑوں عوام بے قابو مہنگائی، لمحہ لمحہ عدم تحفظ کے احساس اور قومی اداروں کی بربادی کا بے بسی سے اذیت ناک تماشہ دیکھنے میں مبتلا رہے۔ اپوزیشن نے اس کامل یقین کے ساتھ کہ حکمرانوں کی اس طویل دھماچوکڑی کے بعد ان کی باری ہے، وہ وہ کچھ برداشت کیا کہ حکمراں حکمراں رہے نہ اپوزیشن اپوزیشن۔ سو، آج جبکہ آمد بہار کے ساتھ انتخابی میلہ بھی سجنے کو ہے، رہی حکمران جماعت اقتدار کے پانچ سالوں کا حساب دینے سے گریزاں ہے اور اپوزیشن لینے سے۔ آئین کی تو نہیں، جاگیردارانہ جمہوریت کی چھتری میں اقتدار کی پانچ سالہ باری میں ہر روز کو روز عید کے طور پر گزارنے والے حکمرانوں نے اب احتساب، حساب کتاب اور عوام کے سوالوں سے بچنے کے لئے قومی سیاست میں نئے نئے موضوعات چھیڑ کر یا چھڑے ہوئے موضوعات کو ہوا دے کر عوام اور اپنی پانچ سالہ بداعمالیوں کے ڈھیر کے درمیان سٹیٹس کو کی مکارانہ سیاست کا پردہ تان دیا ہے۔ کبھی نئے صوبوں سے متعلق متنازعہ کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ میں لا کر تو کبھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو سیاست دانوں کے تابع و محمل بنانے کا مسودہ قانون تیار کر کے، پانچ سالہ اقتدار کے حساب سے بچنے کے لئے نئی نئی قومی بحثیں چھیڑی جا رہی ہیں۔ شکر ہے کہ ن لیگ کچھ ہوش میں آئی اور اس نے جاتے جاتے پی پی کی نئے صوبے بنانے کی مکاری کو فوراً ہی پارلیمنٹ میں ٹھکانے لگا دیا۔ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ اگر پی پی نے ایم کیو ایم اور ق لیگ جیسی جماعتوں کو اچک ہی لیا ہے تو ن لیگ واضح طور پر اعلان کرے کہ ”وہ صوبوں پر قومی بحث اور غور و غوض کے بعد قومی اتفاق سے بنائے گئے اصولوں کے بغیر کسی صورت جاری دور اقتدار میں نئے صوبے بنانے کی کسی پارلیمانی یا غیر پارلیمانی کوشش کی سختی سے مزاحمت کرے گی۔“ اس وقت عوام کی ضرورت تو یہ ہے کہ اب جبکہ آمد بہار پر انتخابی میلہ بھی لگنے کو ہے، پی پی اپنے پانچ سال کے اقتدار کی کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھے کہ اس نے ان کے لئے کیا کیا؟ پھر یہ کہ اپوزیشن کسی بھی صورت پی پی کو حساب کتاب سے بھاگنے نہ دے اور بھاگتی ہے تو بتائے کہ حکمرانوں نے پانچ سال میں عوام کا کیا حال کیا؟ خود عوام (ووٹرز) کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں اپنے موجودہ منتخب نمائندوں سے سوال کریں کہ انہوں نے بطور رکن اسمبلی حکمران جماعت یا اپوزیشن، قانون سازی میں کیا کردار ادا کیا؟ یہ ممبران بھی پابند ہیں کہ وہ از خود اسمبلی میں اپنی کارکردگی کا ریکارڈ عوام کے سامنے رکھیں کہ انہوں نے عوامی مفاد کے کسی مسودہ قانون کی تیاری میں کتنی دلچسپی لی۔ اسمبلی کی بحثوں کی کس کس بحث میں کتنا حصہ لیا، کتنے سوال اٹھائے؟ حقیقی جمہوریت، آئین کی صحیح معنوں میں بالادستی اور عوام کے بنیادی حقوق کے شعور کو بلند کرنے کے لئے میڈیا یقینا اہم کردار ادا کر رہا ہے، لیکن جاگیردارانہ جمہوریت کی چھیڑی ہوئی حکمراں نواز بحثوں میں بھی الجھ جاتا ہے، اس کا فقط فائدہ حکومت کو ہی ہوتا ہے کہ یہ عوامی مفادات کے حوالے سے اپنے حساب کتاب سے بچی رہتی ہے۔ اب جبکہ انتخابات میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں کبھی تو ٹیکنو کریٹس کی 3 سالہ حکومت کا شوشہ چھوڑ کر اس پر بحث اور تبصرہ و تجزیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسی متنازعہ ترین شخصیت کا نام حکومت اور اپوزیشن کے متفقہ نگران وزیراعظم کے طور پر سامنے لا کر عوام کے ایک بڑے حصے کو مشتعل کیا جا رہا ہے، کبھی کینیڈین شیخ الاسلام کے ساتھ مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر خبروں اور تجزیوں کا رخ ادھر موڑ دیا جاتا ہے۔ نئے صوبوں کے قیام کی بحث چھیڑ کر اور سیاسی جوڑ توڑ کی خبریں عام کر کے حکومت حساب دینے اور اپوزیشن لینے پھر آئندہ کے انتخابی پروگرام سامنے لانے سے بچ رہی ہیں۔ (تمام سیاسی جماعتوں کے منشور اب تک عوامی سوچ بچار ان کے سوالات اور وضاحتوں کے لئے آ جانے چاہئیں) پارلیمنٹ سے باہر کی سرگرم ملک گیر جماعتیں بھی منظم انداز میں موجودہ حکمرانوں پر سوالات کی بوچھاڑ کرنے اور اپنے پروگرام اور انتخابی عزائم کو واضح کرنے میں ناکام ہی معلوم دیتی ہیں۔ اس صورتحال سے اس امر کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ گزرے پانچ سالوں کی طرح آنے والے ”جمہوری دور“ میں بھی جاگیردارانہ جمہوریت، ایک بار پھر آئین پاکستان کی حقیقی روح کو دبوچتے ہوئے ملک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ ملک اندرونی سلامتی کے شدید خطرے سے پہلے ہی دوچار ہے۔ سابقہ نیم جمہوری دور میں آج کی بڑی سیاسی قوتوں نے آئین۔ 1973ء کی اصل حالت میں بحالی کا غوغا مچایا۔ اب جب یہ بحال ہو گیا ہے تو کوالٹی کے انتخابی امیدواروں کو ہی انتخابی میدان میں اتارنے کو یقینی بنانے کے آرٹیکلز 62-63 کو متنازعہ اور ناقابل عمل بتایا جا رہا ہے۔ جاری پارلیمنٹ کی شرمناک کارکردگی کا رونا بھی رویا جا رہا ہے۔ آئین کو ایمان بھی بتلایا جا رہا ہے اور اس کی عوام دوست آرٹیکلز کو متنازعہ بنانے کی منافقت بھی جاری ہے۔ ثناء خواہاں جمہوریت نوٹ کر لیں اگر وہ واقعی جمہوریت سے مخلص ہیں تو انہیں جاگیردارانہ جمہوریت کی اس مکاری اور منافقت کا پردہ چاک کرنا ہو گا۔ وگرنہ عوام پر کسی نئے کھیل تماشے کو ہنسی خوشی برداشت کرنے پر تیار ہو جائیں گے اور خاکم بدہن ان کا اور ملک کا بیڑا غرق ہوتا رہے گا۔
تازہ ترین