• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم پاکستانیوں کی کچھ خواہشیں ایسی ہیں جو خدانخواستہ اگر پوری ہو جائیں تو شائد ہم پتھر کے دور میں واپس چلے جائیں ۔لیکن شکر ہے کہ ہم ان خواہشوں کو پورا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، یہاں ہماری نالائقی ہمارے کام آ جاتی ہے ۔ ان خواہشات کا تذکرہ کرنے اور ان کے مبیّنہ نتائج سے لطف اندوز ہونے میں البتہ کوئی مضائقہ نہیں :
1۔دہلی کے لال قلعے پر اسلام کا جھنڈا لہرانا :یہ ہے ہماری پہلی خواہش ، معصوم اور بے ضرر سی!اس خواہش کی تکمیل کیسے ممکن ہے،یہ بچگانہ سوال ہے مگر کوئی بات نہیں بچوں کی تسلی کے لئے ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ کام نہایت آسانی کے ساتھ دہلی پر ایٹم بم پھینک کر چٹکیوں میں کیا جا سکتا ہے ۔خود کش بمباروں کی تو اپنے ہاں ویسے ہی کوئی کمی نہیں ،سو ایٹم بم کو جہاز کے ذریعے گرانے کی بجائے کسی پیدل خود کش بمبار کے گلے میں لٹکا کر اسے واہگہ بارڈر کے راستے سے روانہ کیا جا سکتا ہے ،جہاز کے ایندھن کا خرچہ بھی بچ جائے گا اور کسی ہندو ریڈار کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوگی۔ جونہی ہمارا اسلامی بم دہلی میں پھٹے گا ،سمجھو ہماری فتح کا اعلان ہو گیا ۔کیا لال قلعہ اور کیا تاج محل ہر جگہ ہمارے جھنڈے لہرائیں گے ۔یہ تو ہوا خواہش پوری کرنے کا طریقہ ،اب رہ گئی بات کہ اس کے بعد کیا ہوگا تو یہ ذرا ٹیڑھا سوال ہے ۔آہم …اس کے بعد پورے ہندوستان پر ہماری حکومت ہوگی بالکل پاکستان کی طرح ۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے قبضے کے بعد ہندوستان کی مساجد ،درباروں ،امام بارگاہوں، مندروں اور بازاروں میں بھی خود کش حملے شروع ہو جائیں گے۔عید اور جمعے کی نمازوں سے پہلے نمازیوں کی تلاشی لی جائے گی اور پھر انہیں مسجد میں داخل کیا جائے گا۔محرم ،عید میلاد النبی، عیدین، دیوالی، ہولی وغیرہ کے موقع پر موبائل فون سروس بند کر دی جائے گی۔بولی وڈ کا حال لولی وڈ جیسا ہو جائے گا ،وغیرہ وغیرہ۔ تاہم یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا اگر ہمارے ایٹم بم کے جواب میں بھارتی بم نہ چلا دیا جائے۔اگر کہیں ایسا ہو گیا تو ہندوستان اور پاکستان میں ایک ارب بندہ ہماری اس خواہش کی بھینٹ ضرور چڑھ جائے گا۔ویسے میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ہمارے بم کے جواب میں انڈیا ایٹم بم نہیں چلائے گا کیونکہ انڈیا ہم سے محبت کرتا ہے !
2۔سود سے پاک نظام کا نفاذ: ہماری یہ خواہش تو بے حد جائز ہے ۔جب تک ہم سود پر کھڑے اس سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا نہیں پاتے ،ترقی نہیں کر سکتے ۔مذہبی بحث ایک طرف ،فرض کریں کہ ایسی صالح حکومت بر سراقتدار آ جاتی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے ہماری یہ دیرینہ خواہش پوری کرتے ہوئے ملک سے سودکا خاتمہ کردیتی ہے تو کیا ہوگا ؟
سب سے پہلے تو اسٹیٹ بنک تمام بنکوں کو سرکلر جاری کرے گا کہ وہ فوری طور پر سود کا لین دین بند کر دیں ۔اسی طرح حکومت ایک ہدایت نامہ ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگس کو بھی جاری کرے گی جس کے تحت قومی بچت کے تمام کھاتہ داروں کو منافع کے نام پر سود کی ادائیگی بند کر دی جائے گی ۔سرکاری ملازموں کی تنخواہ سے کاٹے گئے پراویڈنٹ فنڈ پر بھی حکومت کوئی منافع نہیں دے گی اور یوں بالآخر یہ استحصالی نظام چاروں شانے چت ہو جائے گا۔ الحمد للہ ۔اس کے بعد کیا ہو گا؟اس کے بعد یہ ہوگا کہ پاکستان کے 17نجی بنک ،9مائیکرو فنانس بنک، 4اسپیشلائیزڈ بنک،8معاشی ترقی کے ادارے،7غیر ملکی بنک بند ہو جائیں گے اور ان میں کام کرنے والے ہزاروں افراد نوکریوں سے فارغ ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے اور کوئی ایسا وظیفہ کریں گے جس سے انہیں وہ سونے کی ڈلیاں مل جائیں جو یہودیوں نے پوری دنیا سے ہتھیا کر اپنے پاس ذخیرہ کر رکھی ہیں۔ ممکن ہے اس صورتحال میں چند پبلک سیکٹر بنک اور نام نہاد اسلامی بنک کام کرتے رہے ہیں (ویسے مجھے آج تک ان” اسلامی“ بنکوں کی سمجھ نہیں آ سکی، اگر آپ کسی” اسلامی“ بنک سے کار لیز کروائیں تو بھی اتنا ہی سود ویسی ہی شرائط پر ادا کرنا ہوتاہے جو کسی کمرشل بنک کو دینا پڑتا ہے )،لیکن وہ بھی اس صورتحال میں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں گے ۔وجہ نہایت سادہ ہے ،جب منافع کے نام پر ”سود“ ہی بند تو پھر بنک بھی بند۔نتیجے میں بچتوں کی شرح بھی گر جائے گی اور سرمایہ داری کی شرح تو تقریباً صفر ہو جائے گی۔ جب نئے کاروبار کیلئے سرمایہ ہی دستیاب نہیں ہوگا تو سرمایہ داری کہاں سے ہوگی؟یوں تو کرنسی اورشرح سود بالکل مختلف چیزیں ہیں لیکن پھر بھی اپنے دل کی تسلی کیلئے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ہم سونے کو بطور کرنسی استعمال کرنا شروع کر دیں گے تو پھر بھی کیا ہوگا؟ ہمار ے پاس اتنے سونے کے ذخائر ہی نہیں کہ ہم اس سے اپنی کرنسی کی ضروریات پوری کر سکیں، نتیجے میں سونے کا ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگا اور ساتھ ہی مہنگائی بھی۔ بوڑھے پنشنرز کی پنشن بند ہو چکی ہو گی ،قومی بچت سے نادار اور ریٹائرڈ لوگوں کا نان نفقہ بھی بند ہو جائے گا ،سرکاری ملازموں کو ریٹائرمنٹ کے بعد گریچوئیٹی کی جگہ ”چونگا“ ملے گالیکن کوئی بات نہیں،ہماری خواہش تو پوری ہوگی !
3۔امریکی ڈرون مار گرانا: سچی بات پوچھیں تو یہ ہر پاکستانی کی خواہش ہے۔آئے دن کے ڈرون حملے، آخر امریکی اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں ،کیا ہم نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں یاپھر ہمارا حال امریکہ کے سامنے اس بے بس میراثی جیسا ہے جس کی بیٹی کو چوہدری جب چاہے اٹھا کر لے جائے اور میراثی بیچارہ پنچائت میں شکایت بھی نہ کر سکے۔یقینا ہمیں اب کچھ غیرت دکھانا ہوگی ،جس دن ہم نے ایک بھی ڈرون مار گرایا ،امریکیوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے ،ویسے بھی ان کی فوج بہت دلبرداشتہ ہو چکی ہے ،روزانہ 22امریکی فوجی خود کشی کرتے ہیں ۔اب فرض کریں ہم ڈرون طیارہ مار گراتے ہیں ،پھر کیا ہوگا ؟ امریکہ سے جنگ تو خیر بہت بعد کی بات ہے ،سب سے پہلے تو ہمارا حقہ پانی بند ہو جائے گا۔ایک امریکی بحری بیڑہ بحیرہ عرب میں ہماری پٹرول کی درآمد روکنے کے لئے کافی ہے ۔امداد بند ہو جائے گی ،قرضے ری شیڈول نہیں ہوں گے ،امپورٹ بند ہو جائے گی ،امریکی تجارتی پابندیاں لگ جائیں گی، معیشت جو پہلے ہی آخری دموں پر ہے ،زمین پر آ گرے گی ۔پھر بھی اگر ہمارا جذبہ ایمانی برقرار رہا تو ہم سروں پر صافے باندھ کر اپنی تلواریں نکال لیں گے اور امریکہ سے دو بدو جنگ کریں گے جو کئی گھنٹوں تک جاری رہ سکتی ہے ۔پھر ہم رہیں یا نہ رہیں ڈرون حملے ضرور بند ہو جائیں گے ۔
4۔پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم کا نفاذ: ہماری یہ خواہش بھی بہت پرانی اور جینوئن ہے ۔یکساں نظام تعلیم کا نعرہ ہم جب بھی لگاتے ہیں ،اس سے مراد غالباً یہ ہوتی ہے کہ پاکستان کا ہر بچہ ایک جیسے سکول میں ایک جیسی نصابی کتب پڑھے ۔اوکے ۔اس کا مطلب ہے کہ چونکہ غریب کا بچہ اشرافیہ کے سکول میں نہیں پڑھ سکتا لہٰذا اشرافیہ کے سکول بند کر کے ان کے بچے سرکار ی سکولوں میں ڈال دینے چاہئیں ۔پھر کیا ہوگا ؟ پھر یہ ہوگا کہ ملک میں جو گنے چنے اچھے نجی تعلیمی ادار ے ہیں وہ بند ہو جائیں گے اور محمود و ایاز ایک ساتھ ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کریں گے ۔نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنا ملک چلانے کے لئے ہمیں جو تھوڑے بہت پروفیشنلز ،ڈاکٹرز ،بنکرز ،ماہر معاشیات یاانجینئرز مل جاتے تھے وہ بھی ناپیدہو جائیں گے اور سرکاری سکولوں سے صرف کلرک میٹریل ہی مل سکے گا ۔ہماری خواہش البتہ پوری ہو جائے گی۔
5۔پاکستان اسلام کا قلعہ بن جائے : ہماری یہ خواہش تقریباً پوری ہو چکی ہے ۔ ہمارا ملک ایسا قلعہ بن چکا ہے جہاں پوری دنیا کے جہادی نہایت اطمینان سے نہ صرف رہ سکتے ہیں بلکہ اس قلعے سے دوسروں پر حملہ آور بھی ہو سکتے ہیں اور جب انہیں باہر حملہ کرنے کا موقع نہیں ملتا تو پھر وہ قلعے کے اندر ہی حملے شروع کردیتے ہیں …آخر لہو گرم رکھنے کو بہانہ بھی تو چاہئے!
تازہ ترین