• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے وزیر تعلیم نے صوبائی اسمبلی میں تسلیم کیا ہے کہ سیاسی مداخلت اور سفارش نے سرکاری اسکولوں کا نظام خراب کیا ہے بی ایڈ کی ڈگری فروخت ہو رہی ہے جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے 50 ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔ اس خرابی کے پیش نظر صوبے میں نجی و سرکاری درسگاہوں کے اساتذہ کے لئے نیا نظام لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی رو سے تعلیمی قابلیت اور مقررہ ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ کو ہی پڑھانے کا لائسنس جاری کیا جائے گا۔ جہاں تک اساتذہ کے تعلیمی معیار اور قابلیت کا تعلق ہے یہ صورتحال محض سندھ تک محدود نہیں ،گزشتہ چند برسوں سے چاروں صوبوں میں چھپے بھوت اسکولوں کی خبریں سامنے آ رہی ہیں جبکہ بیشتر نجی اسکولوں میں مطلوبہ تعلیمی قابلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے کم تنخواہوں پر اساتذہ بھرتی کرنے کا رجحان عام ہے اس کے نتیجے میں اساتذہ کی اکثریت محض سطحی علم تک محدود ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے اداروں میں طالب علموں کی اکثریت Conceptual Studies سے نابلد ہے ۔اساتذہ کی تربیت اور وسعت مطالعہ کے لئے بی ایڈ اور ایم ایڈ کا نظام رائج ہے جو اب محض ڈگری کے حصول تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ حکومت سندھ نے اس صورتحال کے تناظر میں لائسنسنگ کا نظام لانے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ بعض ممالک میں پہلے ہی متعارف ہے اور یقیناً ان طالب علموں کے لئے نہایت موزوں ہے جو مستقبل میں درس و تدریس کو پیشے کے طور پر اختیار کرنا چاہتے ہوں لیکن وطن عزیز میں ڈگریوں کی طرح لائسنسوں کے حصول میں بھی شفافیت پیدا کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔ ان حالات کے تناظر میں اساتذہ کی ٹریننگ اور اسکولوں کے معائنے کا خامیوں سے پاک پرانا نظام بحال ہونا چاہئے۔ ٹیچنگ اسٹاف کے باقاعدگی کے ساتھ اجلاس اور ان میں نصابی اور غیر نصابی اہداف کا تعین ایسے امور ہیں کہ جن کے ماضی میں نہایت کامیاب تجربات ہو چکے ہیں تا ہم سرکاری اور نجی دونوں سطحوں پر اساتذہ کی یکساں اور معقول تنخواہوں کا تعین بھی ہونا چاہئے۔

تازہ ترین