• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

معاشی بحران سے نکلنے کیلئے سیاسی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں

قومی سیاست الزام تراشی کے مسلسل بیانات کی وجہ سے تلخ ہوتی ہے حکومت اور اپوزیشن میں اختلاف رائے اب ذاتی دشمنی میں بدلتا ہوا نظر آرہا ہے جو تشویشناک ہے ماضی میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایشوز پر اختلاف رائے ہوتا تھا۔ تحریکیں بھی چلتی تھیں محاذ آرائی اور عدم اعتماد تک نوبت آجاتی تھی مگر سماجی اقدار کا پاس ضرور رکھا جاتا ہے ایک دوسرے سے راہ رسم برقرار رکھی جاتی تھیں الزامات زیادہ تر انتخابی مہم کا حصہ ہوا کرتے تھے تاکہ ووٹرز کی رائے پرا ثر انداز ہوا جا سکے مگر اس مرتبہ حکومت کی تشکیل کے ایک سال بعد بھی یوں لگتا ہے کہ جیسے ابھی انتخابی ماحول برقرار ہے۔ اصولی طور پر حکومت وقت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ماحول کی بہتری کے لئے پہل کرتی ہے تاکہ ریاست کے امور معمول کے مطابق چلیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ زبادہ گولہ باری ہی حکمراں جماعت کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا ہے اور سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہ عمران خان منتخب وزیراعظم ہیں ان کی پارٹی کے پاس حکومت کرنے کا مینڈیٹ ہے جب تک انہیں ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہے وہ ملک کے آئینی وزیراعظم ہیں انہیں سلیکٹڈ وزیراعظم کہہ کر مذاق اڑانا بھی معقول بات نہیں ہے، اپوزیشن کو ماحول بہتر بنانے کے لئے یہ تکرار بند کرنی چاہیئے۔ دوسری جانب وزیراعظم کو بھی چاہیے کہ وہ اپوزیشن کو سپیس دیں۔ اپوزیشن کے پاس بھی بہر حال عوام کی نمائندگی کا مینڈیٹ ہے وزیراعظم کا اتنا سخت رویہ بھی قابل رشک نہیں ہے کہ وہ ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے اپوزیشن لیڈر سے مصافحہ کرنا بھی گوار نہ کریں ورکنگ ریلیشن شپ کو بہرحال قائم رہنا چاہیئے۔ پارٹیوں کے اپنے اپنے منشور ہوتے ہیں اپنی سوچ ہوتی ہے ان کی پالیسیاں اپنے نظریات کے تابع ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود ملک اور قوم کے مفاد میں بنیادی ایشوز پر حکومت اور اپوزیشن میں تعاون درکار ہوتا ہے دونوں جانب سے باہمی احترام اور بیانات میں شائستگی اور وقار کو ملحوظ رکھنا جانا چاہیئے۔ وزیراعظم عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عوام سے کرپشن کے خاتمہ کا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں وہ اس پر ضرور ڈٹے رہیں مگر یہ کام لہجے میں تلخی لائے بغیر بھی ممکن ہے مسئلہ یہ ہے کہ جب وزیراعظم سخت ریمارکس دیتے ہیں تو ان کے وزیر اور مشیر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دس قدم آگے بڑھ کر ریمارکس دیتے ہیں۔ اس مہم جوئی سے ماحول خراب ہو رہا ہے حکومت کی پوری توجہ اب اپنی پرفارمنس بہتر بنانے پر مرکوز ہونی چاہیئے حکومت کا ہنی مون پریڈ ختم ہو چکا ہے اب جو ملک کے معاشی حالات ہیں ان کی ساری ذمہ داری بھی سابقہ حکومتوں پر ڈالنا ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو معیشت کی بحالی کا جو چیلنج درپیش ہے وہ آسان نہیں ہے اکنامک سروے نے تمام اقتصادی اعشاریے سامنے رکھ دیئے ہیں بجٹ کے بعد مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے اس سے پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف نیچے گیا ہے بزنس کمیونٹی حکومت سے نالاں ہے اور ملک گیر ہڑتال حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ صنعت و تجارت ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو اعتماد میں لئے بغیر یکطرفہ ٹیکس پالیسیوں پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے درمیانی راستہ تلاش کیا جائے۔ جو دونوں فریقین کے لئے قابل قبول ہو، ڈیڈ لاک اور تصادم کی پالیسی سے حکومت کو سب سے زیادہ نقصان ہو گا، اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں معیشت کی بحالی کیلئے حکومت کا ساتھ دیں ۔ اس وقت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی تبدیلی پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میچ پڑ گیا ہے وزیراعظم نے اپنا وزن چیئرمین سینیٹ کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ حکومت نے اپوزیشن کو دبائو میں لانے کے لئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی ہے لیکن اس محاذ پر اپوزیشن کی پوزیشن مضبوط ہے۔ اپوزیشن محاذ نے سنیٹر حاصل بزنجو کو چیئرمین کا امیدوار بنا کر حکومت کے بلوچستان کارڈ کو غیر موثر کردیا ہے۔ اب حکومتی حلقوں کا سارا زور اس بات پر ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کے معاملے کو جتنا لٹکایا جا سکے اتنا بہتر ہو گا چیئرمین سینیٹ کے پاس چونکہ اختیارات ہیں اس لئے وہ ۔۔۔ معاملات کو رولز کی آڑ میں تاخیری حربوں کے طور پر استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن بہر حال انہیں ریکوزیشن اجلاس بلانا پڑے گا اور ریکوزیشن اجلاس کا ایجنڈا اپوزیشن کا استحقاق ہے۔ اپوزیشن کا اب واحد متعین ایجنڈا چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری ہے سینٹ میں اپوزیشن ممبران کی تعداد

65ہے ان میں سے اگر جماعت اسلامی کے دو ارکان غیر جانبدار بھی ہو گئے تو عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے کیونکہ عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے صرف53 ووٹوں کی ضرورت ہے اپوزیشن کے لئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی قابل قبول تھے مگر محاذ آرائی کے ماحول میں اپوزیش نے انہیں ہٹانے کا کارڈ دراصل مقتدر حلقوں کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ صادق سنجرانی کو ہر قیمت پر بچانے کے لئے حکومت کو اپوزیشن کے کم از کم13سنیٹرز توڑنے پڑیں گے جس میں اگر حکومت کامیاب بھی ہو گئی تو اس پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگے گا۔ اگر حکومت نہ بچا سکی تو اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ وزیراعظم چیئرمین سینٹ کو مل کر کھل کر ان کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں حکومت بہرحال یہ ایک مشکل امتحان میں پھنس گئی ہے۔ نیب کورٹ جج ارشد ملک کی وڈیو اسکینڈل آنٓے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی خدمات وزارت قانون و انصاف کو واپس کردی ہیں یہ معاملہ اعلیٰ عدالتوں میں ہے اس لئے اس پر زیادہ تبصرہ مناسب نہیں ہے لیکن اس سے عدلیہ کی ساکھ بہر حال متاثر ہوئی ہے اور عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے اعلیٰ عدلیہ کو ججز کے سماجی روابط کے بارے میں کوڈ آف کنڈکٹ پر نظرثانی کرنی چاہیئے ججوں کے کنڈکٹ کی مانیٹرنگ اور احتساب کا میکانزم سخت کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسی جگ ہنسائی نہ ہو۔ ججز کے لئے صرف پیشہ ورانہ اہلیت کے معیار پر پورا اترنا کافی نہیں ہے بلکہ ان کا ذاتی کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ارشد ملک کے حلفیہ بیان میں ان کے اعترافات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ججز کی ذاتی زندگی کی مانیٹرنگ کا کوئی فعال سسٹم موجود نہیں ہے جو بہت تشویشناک بات ہے۔ خاص طور پر نیب کورٹ کے ججز کی تعیناتی میں انتہائی احتیاط سے کام لیا جائے کیونکہ یہاں سیاسی شخصیات اور بااثر بیورو کریٹس اور بزنس کمیونٹی شخصیات کے کیسز سماعت کے لئے آتے ہیں۔ ان فیصلوں کے سیاسی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں نیب کورٹ کے جج ایسے ہونے چاہئیں جن کی ساکھ پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اور وہ کسی دبائو، لالچ اور دھمکیوں میں آئے بغیر میرٹ پر فیصلے کریں خواہ کسی کے خلاف ہو یا کسی کے حق میں۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب جج متقی اور پرہیز گار ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسے ججز موجود ہیں۔ ججز کی بھرتی کے معیار میں مطلوبہ تعلیمی اور پیشہ ورانہ اہلیت اور تجربے کے ساتھ ساتھ ان کی دیانتداری کو بھی لازمی قرار دیا جائے۔ آخر میں یہ کہ اس وقت بے یقینی کی صورت حال کی وجہ سے اسٹاک ایکسچینج مندے کا شکار ہے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا عمل رکا ہوا ہے سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہے خطے کے حالات فکرمندی کے اشارے دے رہے ہیں تمام عوامل کی وجہ سے ملک کو درپیش چیلنجز کا تقاضا ہے کہ مقتدر حلقے مداخلت کریں اور ملک و قوم کے مفاد میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ تصادم اور انتقام کے جذبات کی بجائے تحمل، برداشت، رواداری اور بصیرت سے کام لیا جائے۔ سیاسی مفادات کو ملکی مفادات کے تابع کیا جائے۔ پاکستان کا مفاد سب پر مقدم ہے پاکستان کے مفاد کو اولیت دی جائے ماحول کی بہتری کے لئے فوری، موثر اور نتیجہ خیز مداخلت اور اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ خدانخواستہ حالات مزید ابتر ہوئے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین