• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2ہفتے پہلے حکومت نے4دن کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا ۔ سوچا چند دن دبئی میں گزار لیں اس کی وجہ بھی کراچی کے حالات تھے، سندھ حکومت دہشت گردی کو روکنے میں بری طرح ناکام ہے روزانہ ہی 15بیس بے گناہ افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جن میں اتحادی، سیاسی شخصیتیں بھی شامل ہیں۔ علماء کے قتل کی وارداتیں بھی معمول بن گئی ہیں۔ ان حالات میں دبئی کو میں بڑی رشک بھر ی نگاہوں سے دیکھتا ہوں، اس کی وجہ 1975ء میں پہلی مرتبہ لندن جاتے ہوئے ہماری قومی ایئر لائن( پی آئی اے) راستے میں ایک گھنٹہ تک دبئی میں رکی ، دن کا وقت تھا ائیرپورٹ ریگستان کی تپتی ہوئی زمین پر چند کمرے بغیر ائیر کنڈیشن ، کچی پکی دیواروں پر مشتمل تھا۔ چند چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں جن پر تمام عملہ پاکستانی اور بھارتی تھا۔ اللہ اللہ کر کے گھنٹہ گزرا اور واپس مسافروں کو جہاز میں پہنچایا گیا توجان میں جان آئی۔ اس کے بعد جب بھی لندن جانا ہوتا جہاز دبئی اترتا تو میں جہاز میں بیٹھنے کو ترجیح دیتا تھا۔ یہی حال دبئی شہر کا تھا ، معمولی مکانات ، نیم پختہ عمارتیں ، کچی پکی سڑکیں ، معمولی ہوٹل ہوتے تھے جبکہ کراچی جگمگاتا روشنیوں کا شہر ، عمدہ سڑکیں، اونچی عمارتیں ، کشادہ پارک ، امن و آشتی سے بھرپور خوشحال شہری تمام صنعتوں کا جال دنیا بھر کی ایئر لائنز کے دفاتر ، ہر طرف سبزہ ہی سبزہ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دبئی جو ریگستان تھا آج دنیا کے سب سے خوبصورت شہر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
دنیا بھر کی ایئر لائنز کے مرکزی دفاتر، دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت ، دنیا کے سب سے خوبصورت ہوٹل، صنعتیں ، ہمارے ہی لوگوں سے بنائی ہوئی ایئر لائنز ، انشورنس ، بینکنگ آج ہم سے کہیں آگے جا چکے ہیں ۔ جہاں دھول اٹھتی تھی آج وہاں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قطار در قطار خوبصورت عمارتیں، امن ایسا کہ اگر رات کو کوئی خاتون تنہا بھی چہل قدمی کرنے نکلے تو کوئی جرأ ت نہیں کرسکتا کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے ۔ جتنا جتنا دبئی اونچا جاتا گیا اس سے دگنی رفتار سے کراچی نیچے آتا گیا۔ آج پوری دنیا کی بڑی ایئر لائنز کراچی آنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں، سب نے اپنے دفاتر کراچی سے دبئی منتقل کر دیئے ہیں وہاں بیٹھ کر کراچی کے مسافر دبئی سے سوار کراتے ہیں ۔ یہ تمہید لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ میرے ایک دوست جن کے آباوٴاجداد40پچاس سال پہلے کوئٹہ سے فجیرہ (امارات کی سب سے چھوٹی ریاست) جو ٹھٹھہ سے بھی گئی گزری ہوتی تھی وہاں آباد ہوئے تھے انہیں علاج کے لئے دہلی جانا تھا میں نے ان کو مشورہ دیا کہ میرے بہت سے ڈاکٹر اور سرجن دوست کراچی میں ہیں بھارت سے بہتر علاج ہو سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں کل بتاوٴں گا پھر دوسرے دن کہنے لگے کہ ان کی فجیرہ حکومت نے پاکستان جانے سے منع کر دیا ہے پھر وہ صاحب بھارت چلے گئے اور ناکام واپس آئے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا دنیا میں بڑا نام ہے ، دہلی میں بہت گندگی تھی، اسپتال بھی اچھے نہیں تھے، ڈاکٹروں سے بھی وہ بہت شاکی تھے کہ اچھی طرح ان کی دیکھ بھال نہیں کی اور نہ ہی صحیح تشخیص ہوئی چونکہ وہ عربی لباس پہن کر آتے جاتے تھے تو ٹیکسی والوں نے خوب بے وقوف بنایا۔ ایک رات ٹیکسی میں واپس آرہے تھے تو ٹیکسی میں رات کو ایک آدمی ایکسٹرا ہوتا ہے،گوا ایئرپورٹ سے فلائٹ لینی تھی تو دونوں نے ہندی زبان میں کہا کہ اس مسافر کو راستے میں لوٹ لیتے ہیں چونکہ وہ اردو جانتے تھے مگر کام صرف انگریزی سے چلاتے تھے تو انہوں نے اپنے فون سے پولیس ایمرجنسی کا نمبر ڈائل کر کے انگلش میں تھانیدار کو اس مصیبت سے آگاہ کیا تو گوا پولیس نے پوچھا کہ آپ کس طرف ہیں،آپ اپنا موبائل فون ڈرائیور کو دے دیں اور زیادہ نہ گھبرائیں پھر انہوں نے ڈرائیور سے پتہ معلوم کیا اور یہ نہیں بتایا کہ وہ تھانے سے بات کر رہے ہیں پھر وائر لیس کے ذریعے پولیس گاڑیاں پہنچ گئیں اور پولیس نے ڈرائیور کو گرفتار کر کے ان کو اپنی گاڑی میں ایئرپورٹ پہنچایا۔ ایئرپورٹ پر پولیس آفیسر نے پوچھا کہ آپ خیریت سے ہیں اور محفوظ ہیں انہوں نے شکریہ ادا کیا تو اس نے مسکرا کر کہا کہ وہ اس کو اس کا محنتانہ نہیں دیں گے ۔ الغرض انہوں نے 500 روپے دیئے اور اس سے بھی جان چھڑائی۔
واپسی پر میں نے پھر ان کو پیشکش کی کہ وہ پاکستان چلیں ان کا بھرپور علاج کرا دیا جائے گا۔ دوبارہ پھر انہوں نے فجیرہ حکومت کو بھارت کی کارگزاری سنائی اور کہا کہ میرے عزیز دوست میرا علاج پاکستان میں کرانا چاہتے ہیں کیا میں ان کے ساتھ کراچی جا سکتا ہوں۔ وہاں کے فارن آفیسر نے کہا کہ ہم تمھارا علاج اپنے پیسوں سے لندن میں کرا سکتے ہیں مگر دہشت گردی کی وجہ سے کراچی جانے کی اجازت نہیں دے سکتے، مجھے کافی شرمندگی ہوئی ۔ اتفاق سے ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے تو بھارتی چینل سے شاہ رخ خان کا پروگرام آرہا تھا جس میں اس نے صاف صاف کہا کہ میں نے ایسا کوئی بیان یا ارادہ ظاہر نہیں کیا کہ اس کی جان کو بھارت میں خطرہ ہے اور وہ اس ڈر سے پاکستان جانا چاہتا ہے ۔ ساتھ ساتھ اس نے ہمارے وزیر داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کو بھول کر پہلے اپنے مسلمان باشندوں کی حفاظت کریں وہ ایک قاتل کو بھی نہیں پکڑ سکے ، تو میری خاک حفاظت کریں گے۔ اگر ہم آنکھیں کھول کر اپنے جمہوری دور کا موازنہ فوجی دوروں سے کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلا دور لاکھ ہم مشرف کو برا بھلا کہیں اس دور سے ہر لحاظ سے بہتر تھا۔ ہم نے جمہوریت کی لاج نہیں رکھی اپنے عوام کی ہم خود حفاظت کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ خصوصاً کراچی جیسے شہر میں اب کوئی محفوظ نہیں رہا، اب تو پولیس اور رینجرز کے افراد بھی دن دہاڑے ان ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں مر رہے ہیں آگے الیکشن کا زمانہ آرہا ہے ۔ ہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک تو فروری میں کراچی میں دہشت گردی کی نشاندہی کر چکے ہیں ۔ جنوری میں250/افراد مارے جا چکے ہیں،280موٹر سائیکلیں ، 190کاریں اور 530کے قریب موبائل فون چھینے جا چکے ہیں، تویقیناً فروری کا اللہ ہی حافظ ہے۔
تازہ ترین