• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی حکومت نے تقریباً سوا تین سال پہلے بلوچستان سے رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اپنی خفیہ ایجنسی را کے جاسوس اور بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی فوجی عدالت سے اپریل 2017میں سنائی جانے والی سزائے موت منسوخ نیز ملک کے مختلف حصوں خصوصاً بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور لسانی و فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی کارروائیوں کو منظم کرنے جیسے تمام الزامات سے بری کرانے کے لئے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا تھا جبکہ بھارتی جاسوس کے خلاف تمام الزامات کے نہ صرف ٹھوس ثبوت و شواہد موجود تھے بلکہ اُن کا مکمل اعتراف بھی اس نے کر لیا تھا۔ فی الحقیقت مودی حکومت عالمی عدالت میں حقائق کو مسخ کر کے اپنی ریاستی دہشت گردی کا وہ داغ دھونا چاہتی تھی جو کلبھوشن یادیو کے انکشافات سے اس کے چہرے پر بتمام و کمال چسپاں ہو گیا تھا۔ تاہم گزشتہ روز سنائے جانے والے عالمی عدالت کے فیصلے سے واضح ہے کہ اپنی اس کوشش میں مودی حکومت بری طرح ناکام رہی۔ فیصلے میں کلبھوشن کی بریت و رہائی اور اسے بھارت کے حوالے کیے جانے کی استدعا مکمل طور پر مسترد کردی گئی ہے۔ مبارک حسین پٹیل کے نام سے اس کے پاسپورٹ پر بھارتی موقف ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ تاہم عدالت نے ویانا کنونشن کا تقاضا قرار دیتے ہوئے قونصلر رسائی اور سزائے موت کے فیصلے پر پاکستان کی سول عدالت میں نظر ثانی کے حوالے سے بھارت کے موقف کو تسلیم کر لیا ہے لیکن عالمی عدالت کے 16رکنی بنچ میں شامل پاکستان کے ایڈہاک جج جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا ہے کہ ویانا کنونشن جاسوسوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ تاہم اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کو رہا نہ کرنے اور پاکستان کی تحویل میں رکھے جانے کا فیصلہ پاکستان کے موقف کی واضح جیت ہے جبکہ فوجی عدالت کے فیصلے پر سول عدالت میں نظرثانی کے حق پر ہمارا موقف شروع سے یہ ہے کہ ملزم کو اس کا حق حاصل ہے اور عالمی عدالت نے بھی یہی بات کہی ہے۔ لہٰذا نظرثانی اور ازسر نو غور کے حوالے سے کارروائی میں قانون کی عدالت ویانا کنونشن کی شقوں کو پوری طرح مدنظر رکھے گی اور ہمیں عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔ بعض ماہرین قانون کے بقول عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی پابندی لازم نہیں لیکن اس کے مقابلے میں یہ رائے زیادہ صائب معلوم ہوتی ہے کہ اسے قبول کیا جائے اور سول عدالت کی نظر ثانی کے بعد جو بھی فیصلہ ہو اس پر عمل درآمد کرکے ثابت کیا جائے کہ پاکستان انصاف کے تقاضوں کو آخری حد تک ملحوظ رکھنے اور بین الاقوامی اداروں کے فیصلوں کا احترام کرنے والا ملک ہے۔ کلبھوشن کے معاملے میں حکومت پاکستان کی طرف سے عالمی برادری پر یہ حقیقت بھی پوری طرح واضح کی جانی چاہئے کہ وہ محض جاسوس نہیں بلکہ اپنی حکومت کی پالیسیوں کے تحت پڑوسی ملک میں بدامنی و خوں ریزی کو ہوا دینے والا ایک بڑا دہشت گرد بھی ہے جس کی کارروائیوں سے واضح ہے کہ اس کا ملک خطے میں دہشت گردی کی بھرپور سرپرستی کر رہا ہے۔ بھارت پوری دنیا میں پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دینے کے لئے کوشاں رہتا ہے، ممبئی، پٹھان کوٹ اور پلوامہ وغیرہ سمیت دہشت گردی کی ہر کارروائی کا الزام اس کی جانب سے کسی تحقیق اور ثبوت کے بغیر پاکستان پر عائد کردیا جاتا ہے اور عالمی برادری بالعموم اپنے معاشی مفادات کی خاطر اس کے ساتھ دیتی ہے لیکن کلبھوشن کے انکشافات، کشمیر میں عشروں سے جاری بہیمانہ مظالم اور سمجھوتہ ایکسپریس کو نذر آتش کرنے جیسی کارروائیوں کے ذمہ داروں کی پشت پناہی سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ بھارت کے غیر ریاستی عناصر نہیں بلکہ خود بھارتی حکومت ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ لہٰذا عالمی برادری کو حقائق کی روشنی میں اپنے طرزِ فکر کی اصلاح کرنی چاہئے اور بھارت کو جنوبی ایشیا میں کشیدگی اور بدامنی پھیلا نے کی کوششوں سے باز رکھنے میں اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرنا چاہئے۔

تازہ ترین