• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم کادورہ امریکا،ٹیرف رعایت کیلئےحکومت تاحال فیصلہ نہ کرسکی

اسلام آباد(خالد مصطفیٰ)وزیراعظم کادورہ امریکا‘ٹیرف رعایت کیلئےحکومت تاحال فیصلہ نہیں کرسکی ہے کیوں کہ صدر ٹرمپ چین ، ترکی ، میکسیکو اور کینیڈا کو دی جانیوالی ٹیرف رعایتیں ختم کرچکے ہیں اور بھارت کو بھی جی ایس پی اسکیم سے باہر کیا جاچکا ہے۔وزیر اعظم کے دورہ امریکا کے موقع پر پاکستان محدود آزاد تجارتی معاہدے کی کوشش کریگا۔یورپی یونین سے حاصل کی گئی رعایت کی طرح پاکستان ، امریکا سےبھی ٹیکسٹائل مصنوعات پر خصوصی رعایت کا خواہاںہے۔جس کے بدلے میں پاکستان ، امریکی فوج کے افغانستان سے محفوظ انخلا ءکویقینی بنانے کی پیشکش کریگا۔اس کے علاوہ پاکستان ، امریکا کو اس کی زرعی مصنوعات پر رعایت کی پیش کش بھی کرسکتا ہے۔جب کہ امریکا سے دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے کے لیے شرائط میں نرمی کی درخواست بھی کی جائیگی۔تفصیلات کے مطابق،پی ٹی آئی حکومت اب تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے پہلے دورہ امریکا کے موقع پر امریکی حکام سے ٹیرف میں رعایت لے یا نہیں کیوں کہ انہیں خوف ہے کہ یہ بے سود ثابت ہوسکتا ہے کیوں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ناقابل اعتبار ہیں۔سینئر عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو بتایا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان آج(19جولائی)کو امریکا کے دورے پر روانہ ہوں گے۔اہم بات یہ ہے کہ امریکا بھی دفاعی موڈ میں ہے۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے زیر اثر امریکا ، افغانستان سے اپنے فوجی دستوں کا محفوظ انخلا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ سخت آئی ایم ایف پروگرام اور ایف اے ٹی ایف کو حربے کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ایف اے ٹی ایف پہلے ہی پاکستان سے کہہ چکا ہے کہ وہ اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق ان کی باقی ماندہ شرائط کو اکتوبر تک پورا کرے۔اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے میں ناکام ہوا تو اسے بلیک لسٹ کردیا جائے گا۔جب کہ آئی ایم ایف اپنی حالیہ رپورٹ میں کہہ چکا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام جاری رہنے کادارومدار ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے پر ہے۔تاہم، عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان ، امریکی فوجی دستوں کا افغانستان سے محفوظ انخلا میں کردار ادا کرنے کو استعمال کرتے ہوئے مزید تجارتی رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کرےگا۔ پاکستان پہلے ہی حافظ سعید کو گرفتار کرچکا ہے اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بھی ملک بھر کے مدارس چلانے والے علما سے ملاقات کی ہے ، جیسا کہ امریکا کا مطالبہ تھا تاکہ وزیراعظم کے دورہ امریکا کو کامیاب بنایا جاسکے۔اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار سنبھالتے ہی امریکا کی چین کے ساتھ تجارتی محاذ آرائی جاری ہے ۔بنیادی طور پر امریکی صدر ٹیرف رعایتوں پر بہت زیادہ حساس ہیں۔امریکا اب تک ترکی، میکسیکو اور کینیڈا کی ٹیرف رعایتیں کم کرچکا ہے تاکہ امریکی صنعت کو ترقی دے اور امریکیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار یقینی بنایا جاسکے۔امریکا نے بھارت کو بھی ٹیرف رعایتوں سے نکال دیا ہے جو کہ جنوبی ایشیا میں امریکا کا اہم شراکت دار ہے۔امریکی صدر کے غیر یقینی ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت کامرس کے حکام بھی کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے ہیں کہ پاکستان تجارتی رعایتیں طلب کرے یا نہیں جو کہ پاکستان کی معیشت کےلیے بہت اہم ہے۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان کو جی ایس پی کے تحت غیر روایتی اشیا پر رعایت حاصل ہے ۔تاہم ، امریکا نے بھارت کو جی ایس پی اسکیم سے باہر کردیا ہے۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ جی ایس پی سہولیات کے تحت امریکا ، پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات پر کسی قسم کی ٹیرف رعایت میں توسیع نہیں کرے گا لیکن ہم دوسرے طریقہ کار کے تحت رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر صدر ٹرمپ پاکستان کے ٹیکسٹائل شعبے کو رعایت دینے کو تیار ہوتے ہیں تو یہ جی ایس پی کے تحت ممکن نہیں ہےکیوں کہ ایسی صورت حال میں امریکا کو جی ایس پی اسکیم میں ترمیم کرنا ہوگی اور ڈبلیو ٹی او بھی فوری ردعمل دے گا کیوں کہ جی ایس پی اسکیم کے تحت معاہدے میں تبدیلی کی اجازت نہیں ہے۔فی الحال امریکا ترقی پذیر ممالک کے لیے 3500ٹیرف لائنز میں اور کم ترقی یافتہ ممالک(ایل ڈی سیز)کے لیے 1500ٹیرف لائنز میں رعایتوں میں توسیع کررہا ہے۔جی ایس پی کے تحت امریکا 3500ٹیرف لائنز پر رعایت میں توسیع کررہاہے لیکن ٹیکسٹائل مصنوعات پر کوئی رعایت نہیں دے رہا۔تاہم، ایل ڈی سیز کو 1500ٹیرف لائنز پر جو رعایت دی جارہی ہے ، اس میں ٹیکسٹائل مصنوعات شامل ہیں، لہٰذا جی ایس پی کے تحت پاکستان کے لیے رعایت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اس لیے پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ٹیکسٹائل مصنوعات پر خصوصی انتظامات کے تحت رعایت حاصل کرے گا ، جیسا کہ یورپی یونین نے 2010کے سیلاب کے بعد پاکستان کو دی تھی۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم امریکا کے تجارتی نمائندگان(یو ایس ٹی آر)سے کہیں گے کہ وہ اے ٹی پی طرز کی تجارتی رعایت پاکستان کو دے کیوں اس طرح امریکا ، ڈبلیو ٹی او سے چھوٹ حاصل کرسکتا ہے۔ایک تجویز یہ بھی ہے کہ پاکستان ، امریکی حکام کے سامنے محدود آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے)کی بات کرے ، جس میں پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات پر زیادہ سے زیادہ رعایت حاصل کرسکے اور بدلے میں پاکستان امریکا کی زرعی مصنوعات پراسی طرح کی رعایت کی پیش کش کرے۔اگر امریکا پاکستان کے ساتھ محدود ایف ٹی اے کرتا ہے تو پاکستان 21واں ملک ہوگا ، جس کے ساتھ ایف ٹی اے کیا گیا ہوگا۔فی الحال امریکا نے جن 20ممالک سے آزاد تجارتی معاہدے کررکھے ہیں ان میں پیرو، جنوبی کوریا، میکسیکو، مراکش، اومان، بحرین اور اردن شامل ہیں۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی حجم 5اعشاریہ5ارب ڈالرز ہے اور اس میں اضافے کی ضرورت ہے۔اعداد وشمار کے مطابق، 2017میں پاکستان کی برآمدات 3اعشاریہ57ارب ڈالرز تھی ۔جس میں تجارتی سرپلس 76کروڑ 50لاکھ ڈالرز تھا۔گزشتہ برس امریکا سے برآمدات کرنے والے پانچ سرفہرست ممالک میں چین (505ارب ڈالرز)، میکسیکو(314ارب ڈالرز)، کینیڈا(300ارب ڈالرز)، جاپان(136ارب ڈالرز)اور جرمنی (118ارب ڈالرز)ہے۔اس فہرست میں پاکستان کا 59واں نمبر ہے۔امریکا سے پاکستان کی اہم درآمدات میں مشینری، الیکٹریکل آلات، سویا بین، ملک پائوڈر، مکئی ، مٹر، کپاس، لوہا اور اسٹیل، ریل انجن، کیمیکلز اور فارما سیوٹیکلز شامل ہیں۔2012سے ویتنام اور بھارت نے امریکی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں اپنے شیئرز میں اضافہ کیا ہے ، جب کہ چین کے شیئرز میں کمی واقع ہوئی ہے۔امریکا نے اپنے درآمدات کی نگرانی ریگولیٹری طریقہ کار کی وضاحت کی ہے۔جولائی،2018تک امریکا کا مطابقتی ٹیرف شیڈول (ایچ ٹی ایس) 105168ٹیرف لائنز تھا۔ا ن میں سے 36اعشاریہ8فیصد ڈیوٹی فری ٹیرف لائنز تھیں ۔1اعشاریہ9فیصد ٹیرف کوٹے سے متعلق تھی۔جب کہ قابل ڈیوٹی ٹیرف لائنز کی اوسط شرح 7اعشاریہ6فیصد تھی۔امریکا کے 42ممالک سے دوطرفہ سرمایہ کاری معاہدے ہیں ، جب کہ 52ممالک سے تجارت اور سرمایہ کار ی فریم ورک معاہدے(ٹیفا)ہیں۔مشرف کے دور میں اس وقت کے امریکی صدر جونیئر جارچ بش کے دورہ پاکستان کے موقع پر امریکا نے پاکستان کے ساتھ ٹیفا معاہدے کا اعلان کیا تھا۔جس کے بعد اگلا مرحلہ کے لیے دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے (بی آئی ٹی)کی تجویز تھی ۔لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ، جس کی وجہ امریکی حکام کی جانب سے ناقابل قبول شرائط تھیں۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان، امریکی انتظامیہ سے کہہ سکتا ہے کہ وہ بی آئی ٹی کے لیے اپنی شرائط میں نرمی لائے۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکا ، پاکستان میں اپنی مصنوعات کی دانشورانہ ملکیت کے حقوق(آئی پی آرز)کی خلاف ورزی سے متعلق بہت حساس ہے ، اس لیے یہ معاملہ اٹھاسکتا ہےگو کہ پاکستان اس مسئلے سے جان چھڑا چکا ہے ۔
تازہ ترین