• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی اقدار نہ ماننے والوں کو مائیگرنٹ ورکرز سپانسرکرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،ساجدجاوید

لندن (جنگ نیوز) وزیر داخلہ ساجد جاوید نے انتہاپسندی سے نمٹنے کیلئے اپنے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانوی اقدار نہ ماننے والوں کو مائیگرنٹ ورکرز سپانسر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے امریکی صدر کی جانب سے ڈیموکریٹ ارکان کو وطن واپس جانے کے نسل پرستانہ مشورے پر ہلکی سی چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ رہنمائوں کو انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں بہت ہی متوازن الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔ ساجد جاوید نے جمعہ کو اپنی تقریر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ روکنے کی مہم چلانے والی لندن کی تنظیم کیج گروپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتہائی معروف گروپ ہے، جو ہماری اقدار کو مسترد کرتا ہے۔ انھوں نے اس گروپ کو حاصل لوگوں کو برطانیہ بلانے کا لائسنس منسوخ کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ ساجد جاوید نے گروپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت مسلم مخالف ہے، یقیناً یہ لوگ میرے بارے میں بھی یہی کہیں گے۔ میں ہمیں تقسیم کرنے والوں کے خلاف جہاں ممکن ہوگا کارروائی کروں گا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے مائیگرنٹ ورکرز سپانسر کرنے کی گائیڈنس میں ترمیم کردی ہے، اس سے ہمیں برطانوی اقدار کے منافی کام کرنے والی تنظیموں کے سپانسر لائسنس منسوخ کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میں ریپرنزٹیشن کی بنیاد پر کیج کا لائسنس منسوخ کرنے پر غور کر رہا ہوں، کیج جیسے گروپوں پر سپاسنر شپ کیلئے اعتماد نہ کیا جائے۔ انھوں نے ذاتی طور پر ایک سفید فام برتری میں مبتلا شخص اور ایک سیاہ فام قوم پرست سمیت 8 انہتا پسندوں کو برطانیہ میں داخلے سے روکا ہے۔ ساجد جاوید نے اپنی تقریر میں لیبر پارٹی میں موجود یہودی مخالفوں پر بھی تنقید کی۔ تقریر کا موضوع تھا ’’مل جل کر انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا‘‘۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ جیرمی کوربن نے گزشتہ سال ان پر مقدمہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئےقائدانہ کردار ادا نہیں کریں گے تو ہم بقیہ معاشرے سے کیا توقع کرسکتے ہیں۔ ساجد جاوید امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون سینیٹرز کواپنے آبائی وطن جانے کا مشورہ دینے پر مبنی ٹوئیٹ کی مذمت تو نہیں کی لیکن کہا کہ میں بھی ایک مائیگرنٹ ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ کسی کو اپنے آبائی وطن جانے کا مشورہ دینے کا کیا مطلب ہے، میں نہیں سمجھتا کہ ان کا یہی مطلب تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں امیگریشن کے بارے میں اپنا تصور تبدیل کرنا ہوگا، انتہا پسند امیگریشن کو ہمیں تقسیم کرنے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ جب وہ نسلی استعارے کے طور پر امیگریشن کو استعمال کرتے ہیں تو وہ خوف میں اضافہ کرتے ہیں، کوئی بھی انتہاپسندوں کے پھیلائے ہوئے اس تصورکو، جو تقسیم کو گہرا کر رہا ہے، چیلنج کرسکتا ہے۔ اس لئے اپنے دوستوں سے کہیں کہ وہ زوردار الفاظ میں بات کریں اور اس پر فخر کریں۔ انھوں نے کہا کہ اقلیتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے ہماری ملازمتیں نہیں چھین رہے ہیں، وہ دہشت گرد نہیں ہیں اور کوئی عالمی یہودی سازش نہیں ہے۔ ساجد جاوید نے انتہاپسندی سے نمٹنے کے 3 مرحلے پر مبنی حکمت عملی کی وضاحت کی، جس میں حکایات کا مقابلہ کرنا، کمیونٹیز کو مستحکم بنانا اور اس کی وجوہات سے نمٹنا شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ2015 میں شروع کی جانے والی انتہا پسندی کی حکمت عملی کے بعد یہ پہلی بڑی مداخلت تھی۔ انھوں نے معاشرے کو مزید مربوط بنانے، لوگوں کو انگریزی سکھانے میں مزید مدد کرنے اور قومی شناخت کے جشن میں کمیونٹیز کے ساتھ مزید تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ میں انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور اپنے ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والوں کو روکنے کیلئے حتی الامکان تمام کوششیں کروں گا۔ انھوں نے کہا کہ ہر ایک کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، براڈکاسٹرز کو انتہا پسندوں کو پلییٹ فارم مہیا نہیں کرنا چاہئے، پولیس کو بدترین مجرموں کو پکڑنا چاہئے اور عوامی نمائندوں کو متوازن زبان استعمال کرنی چاہئے۔ انھوں نے یہ تقریر انتہا پسندی کے خلاف آزاد کمیشن کی جانب سے، جو انگلینڈ اور ویلز میں انتہاپسندی کے خطرے اور اس پر ردعمل کا جائزہ لے رہا ہے، کرائے گئے سروے رپورٹ سامنے آنے کے بعد کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کم وبیش 3 ہزار افراد نے سوالات کے جواب دیئے، جن میں سے 52 فیصد نے کہا کہ انھوں نے خود انتہاپسندی کا مشاہدہ کیا ہے، 45 فیصدنے کہا کہ انھوں نے اسے آن لائن دیکھا ہے جبکہ 39 فیصد نے کہا کہ انھوں نے اپنے علاقے میں اسے دیکھا ہے۔ ان میں سے 59 فیصد نے کہا کہ انھوں نے اسلامی انتہاپسند دیکھے ہیں، 37 فیصد نے انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند جبکہ 29 فیصد نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند دیکھنے کادعویٰ کیا۔

تازہ ترین