• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں یکساں نصابِ تعلیم رائج کرنے میں کوشاں ہے، اس سلسلے میں تمام مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی اور اُنہیں وفاقی وزارتِ تعلیم سے منسلک کیا جائے گا تاہم وہ اپنا نظم و نسق خود سنبھالیں گے۔ جمعرات کو پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر نے کہا کہ تمام مدارس کو رجسٹر کرنے کے لئے اتفاق رائے موجود ہے، رجسٹریشن نہ کروانے والے مدارس کام جاری نہ رکھ سکیں گے۔ نصابِ تعلیم کو ازسر نو ترتیب دینے کے لئے بھی اقدامات کر رہے ہیں، آئندہ تمام ٹرانزیکشنز بذریعہ بینک ہوں گی، مدارس میں میٹرک اور ایف اے کے تمام لازمی مضامین پڑھائے جائیں گے جن کا امتحان فیڈرل بورڈ لے گا اور اسناد جاری کرے گا، جوں جوں حالات بہتر ہوں گے مدارس کی مالی امداد بھی کی جائے گی۔ مدارس کی اہمیت بلاشبہ مسلمہ ہے اور اسلامی تاریخ میں ان کے درخشاں کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جنہوں نے دنیا کے بہترین قانون دان، فلسفی، منظم، اطبا، مورخ اور سائنسدان پیدا کیے۔ اول اول، تعلیم جس کا حصول ہر مومن مرد و عورت پر فرض قرار دیا گیا ہے، صرف مساجد میں ہوتی تھی بعد ازاں اس کے لئے الگ سے جگہیں مخصوص کر دی گئیں۔ اپنے خطے کی بات کریں تو انگریز کی آمد سے قبل حصول تعلیم کا واحد ذریعہ مدارس ہی تھے، نجانے کیا اسباب رہے ہوں گے کہ مدارس محض دینی تعلیم تک محدود ہوتے چلے گئے جبکہ دوسری طرف انگریز نے جدید تعلیم کی بنیاد ڈالی جو عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھی، مسلمانوں کے بجائے ہندوئوں نے انگریزی نظام تعلیم کو اپنایا اور ہم سے آگے بڑھ گئے۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں مدارس کی تعداد سینکڑوں تھی جو اب ہزاروں میں ہے۔ سوویت یونین کی افغان جنگ کے بعد ملک کے طول و عرض میں مدارس کی تعداد میں برق رفتاری دیکھنے میں آئی۔اس عمل کے پیچھے بعض ایسے عناصر کا ہاتھ بتایا جاتا ہے جن کے مقاصد مذہب کے نام پر ملک کے سیاسی نظام کے تاروپود بکھیرنا ہو سکتے ہیں،ایسی تنظیموں کی آبیاری کی گئی جن کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ مدارس سے ہی تھا اور آج ان میں سے بیشتر کالعدم ہیں اور پاکستان ہی کیا اقوام متحدہ تک نے ان تنظیموں کو کالعدم قرار دیا، پاکستان نے بلاشبہ ان کے خلاف بلا تخصیص و بلا امتیاز کارروائی کی لیکن ہمارے ہمسائے بھارت نے اپنے ملک میں ہونے والی ہر کارروائی کا ملبہ پاکستان پر ڈالا اور اپنی سفارتکاری کے ذریعے پاکستان پر دہشت گردی برآمد کرنے والے ملک کا لیبل لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ افسوس کہ دنیا بھارتی موقف کی ہمنوا دکھائی دیتی ہے یہاں تک کہ فنانشل ایکشن ٹاسٹک فورس بھی بھارتی موقف کی قائل نظرآ رہی ہے اور پاکستان کو مطلوبہ اقدامات نہ کرنے پر گرے لسٹ میں شامل کرنے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ جس کا مطلب ہے عالمی تنہائی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عہد حاضر میں عالمی برادری سے کٹ کر کوئی ملک ترقی و خوشحالی کا منہ دیکھ سکتا ہے تو وہ خود فریبی میں مبتلا ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پر عمل نہ کرنا پہلے سے لاغر معیشت کے حامل ملک کے لئے ’’مرے پہ سو درے‘‘ کے مترادف ہو گا۔ ان تمام حالات میں دیکھا جائے تو مدارس کی رجسٹریشن یا تبدیلی نصاب ناقابلِ فہم نہیں، اب ہمیں یہ کام کرنا ہی ہو گا۔ مدارس دینی تعلیم کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور رجسٹریشن کے بعد بھی دیتے رہیں گے تو رجسٹریشن میں کیا مضائقہ ہے جبکہ ان کے مدارس کا انتظام بھی ان کے ہاتھوں میں ہی رہے گا۔ یہ تو ایک بہتر اقدام ہے کہ دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول کے بعد مدارس کے طلبہ کی سند تسلیم ہو گی، وہ قومی دھارے میں شامل ہو سکیں گے، سرکاری ملازمتوں کے در ان پر وا ہوں گے۔ امید ہے کہ مدارس اس حکومتی اقدام پر صاد کہیں گے اور خود رجسٹریشن کے لئے آگے آئیں گے کہ یہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس حوالے سے ضروری ہے کہ حکومت تمام فیصلے وزارت کے منتظمین کو اعتماد میں لے کر کرے۔

تازہ ترین